امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ
کے اصلاحی کارنامے
امام اہلسنت، مجدد دین وملت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت عالم اسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ فقہ حنفی اور عالم اسلام کے لئے ان کی علمی خدمات آسمان علم و فن کی فضاؤں میں بادل بن کر چھائی ہوئی ہیں ۔ عصر حاضر اور ماضی قریب میں ان جیسا صاحب علم وفن اور عارف حق کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔وہ انقلاب 1857ءسے ایک سال قبل 14جون 1856ءکو ہندوستان کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے اور وہیں انتقال ہوا۔ اپنی جائے پیدائش ”بریلی “کی نسبت سے ”فاضل بریلوی“ اور ”محدث بریلوی“ کے القاب سے مشہور ہوئے ۔چار سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ اور صرف تیرہ برس دس ماہ پانچ دن کی عمر میں جمیع علوم دینیہ کی تکمیل سے مشرف ہوئے ۔1869ءمیں سند فراغت حاصل کی اور اسی روزوقت کے عظیم عالم دین اپنے والد مولانا نقی علی خاںحنفی رحمة اللہ علیہ کے مسند افتاءجو کہ ہندوستان کے حنفی دارلافتا میں ممتاز تھی پر بیٹھ کر پہلا فتویٰ تحریر فرمایا۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد اور اس وقت کے جید علمائے احناف سے علم حاصل کیا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ علوم دینیہ کی طرح علوم جدیدہ وقدیمہ پر بھی مہارت رکھتے تھے ۔مورخین نے تقریباً پچپن (55)علوم و فنون میں ان کی مہارت کا ذکر کیا ہے ۔وہ جدید سائنس پر بھی گہری نظر رکھتے تھے چنانچہ عالم اسلام کے نامور ایٹمی سائنسدان محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خاں فرماتے ہیں : ”اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک اہم پہلو سائنس سے شناسائی بھی ہے ۔سورج کو حرکت پذیر اور محوگردش ثابت کرنے کے ضمن میں آپ کے دلائل بڑے اہمیت کے حامل ہیں ۔(ایک ہمہ جہت سائنسدان ،صفحہ3مطبوعہ کراچی)
علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ ”علوم باطنی“ سے فیضیاب ہونے کےلئے ہندوستان کے عظیم روحانی مرکز ”خانقاہ عالیہ برکاتیہ “ مارہرہ حاضر ہوئے اور حضرت سید ی شاہ آل رسول مارہروی رحمة اللہ علیہ سے سلسلہ قادریہ میں ارادت مندی حاصل کی۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ عقائد و افکار میں متقدمین اور سلف صالحین کے پیروتھے ۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مقلد اور مشرباً ”قادری“ تھے ۔انہوں نے مذہب کے علاوہ علم و فن اور سیاست میں بھی تجدید واحیا کے اہم فرائض سر انجام دئےے اسی بنا پر علماءعرب و عجم نے انہیں ”چودھویں صدی کا مجدد“قرار دیا۔یاد رہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے کسی نئے مذہب یا مسلک کی بنیاد نہیں رکھی اور نہ ہی بریلویت کوئی نیا مذہب ہے۔بلکہ شہرِ بریلی کے عقیدت مند بریلوی کہلاتے ہیں ۔ مسلکاً سب اہلسنت وجماعت سواد اعظم کے افراد ہیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تمام زندگی عقائد اسلام اور ناموس رسالت کی پہراداری میں گزاری ۔ان کا قلم تمام اعتقادی فتنوں کا تعاقب کرتا رہا ۔اسلام کی عزت و حرمت کے مقابل وہ کسی کو خاطر میںنہ لاتے تھے ۔ا ن کے بے لاگ فتاویٰ اور علمی تنقید و گرفت درحقیقت ان کی غیرت ایمانی اور عشق رسول ﷺ کا مظہر ہے ۔ جس کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا ۔
قادیانیت موجودہ صدی میں اسلام کے خلاف سب سے زیادہ خوفناک سازش ہے جومسلمان کےلئے کینسر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے اس فتنہ کے خلاف علمی و قلمی جہاد کیا ۔آپ کے فتاویٰ نہ صرف قادیانیت بلکہ مرزائیت نوازوں کے خلاف بھی شمشیر بے نیام ثابت ہوئے ۔فتنہ قادیانیت کی نقاب کشائی میں آپ کے دیگر فتاویٰ کے علاوہ درج ذیل رسائل نے اہم کردار ادا کیا۔٭السوءوالعقاب علی المسیح الکذاب(1320ھ) ٭قھر الدیان علی مرتد بقادیان(1323ھ) ٭الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی (1340ھ) ٭المبین ختم النبین(1326ھ) ٭ختم النبوة۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں جو مخالفین نے پراپےگنڈہ عوام میں پھیلا رکھا ہے کہ وہ ہر ایک کو کافر قرار دےتے تھے غلط ہے۔ بلکہ وہ ہر کلمہ گو کو مسلمان قرار دیتے مگر روح اسلام کو بھی اس کے قول و فعل میں جیتا جاگتا دیکھنا چاہتے تھے اس کے ساتھ ساتھ تاریخ و تہذیب اور تمدنی عمل کے پیش نظر وہ اس حد تک چھوٹ دیتے تھے کہ جس حد تک قول و عمل شریعت سے متصادم نہ ہو۔ وہ ہر اس شخص کو جو دین میں نئی نئی باتیں داخل کرتا بدعتی قرار دیتے اور ہر اس شخص کا تعاقب کرتے جو ان کی نظر میں تجدید کے بہانے بے راہ روی اور خرافات ایجاد کرتا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے معاشرہ کی خلاف شرع عادات اور رسوم پر گہری تنقید کی اور اس طرح تجدید و اصلاح کی ذمہ داری بھی ہوتی گئی ۔اسلامی معاشرہ کے بعض افراد فرائض و سنن چھوڑ کر مستحبات و مباحات کے پیچھے لگے رہتے ہیں ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی نظر میں ایسے لوگوں کی نیکیاں مردود ہیں۔کیونکہ فرائض وہ سنن کو چھوڑ کر مسلمان معرفت و حقیقت کی منازل طے نہیں کر سکتا ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ شریعت و طریقت کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کے خلاف تھے ۔اس ضمن میں انہوں نے ایک مستقل رسالہ”مقال العرفا“ بھی تحریر کیا ہے ۔وہ پیری و مریدی کے قائل اور اصلاح باطن کے لئے اسے مفید قرار دیتے مگر اس روحانی نظام کے فروغ کی آڑمیں خرافات کے ابلاغ اور غیر شرعی حرکات کے سخت خلاف تھے ۔وہ اولیاءاللہ کے مزارات پر حصول برکت کے لئے جانا جائز قرار دیتے ہیں ۔ مگر عورتوں کا مزارات پر بے پردہ جانا مناسب خیال نہ فرماتے تھے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے غیر اللہ کے لئے سجدہ عبادت کو کفر و شرک اور سجدہ تعظیمی کو حرام قرار دیا ہے ۔وہ گھر میں مجسمے سجانے اور تصاویر لگانے کے بھی خلاف تھے ،برصغیر میں بعض لوگ حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ و دیگر اولیاءکرام اور ”براق“ کی فرضی تصاویر لگاتے ہیں ۔ وہ اس کے سخت خلاف تھے ۔مسلمانوں میں فاتحہ ،سوئم ، چہلم ،برسی اور عرس کا عام رواج ہے ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ اسے اس کی روح کے ساتھ صحیح اور جائز قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اس میں غیر ضروری لوازمات کو بے اصل قرار دیتے ہیں ۔وہ میت کے ایصال ثواب کے لئے غربا کو فوقیت دیتے ہیں اور اس کے سخت خلاف ہیں کہ برادری کے لوگوں کو بلا کر انہیں کھاناکھلانے کا اہتمام کیا جائے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ قبروں پر لوبان ،اگر بتی وغیرہ جلانے کو مال کا اسراف قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک قبروں پر پھول ڈالنا اور ایصال ثواب کرناجائز ہے مگر ایک سے زائد کپڑے کی چادریں قبر پرڈالنے سے منع کرتے ہیں اور چادر کے بدلے صاحب مزار کے نام کی خیرات کرنا اور فقرا کو کھانا کھلانا افضل قرار دیتے ہیں ۔وہ مزامیر کے بغیر نعت و منقبت کے قائل ہیں ۔ خود ان کا نعتیہ دیوان”حدائق بخشش“ کے نام سے مشہور و عام ہے ان کا عربی ”بساتین الغفران“ اور فارسی کلام ”ارمغان رضا“ کے نام سے ملتا ہے ،جبکہ انکا نعتیہ سلام اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔حضور اکرم نور مجسم ﷺ کی بارگاہ میں شعراءکرام نے اپنی اپنی حسن نیت اور توفیق الہٰی کے باعث سلامیہ قصائد لکھ کر نذرانہ عقیدت پیش کیا مگراعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے سلام:
مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
کو ایسا قبول عام نصیب ہوا کہ ایک صدی گزرجانے کے باوجود آج بھی پورے برصغیر اور بلاد اسلام میں فضا ئیں اس کی والہانہ آواز سے گونج رہی ہیں ۔ان کا عشق رسول اللہ ﷺ لاثانی تھا انہوں نے ساری زندگی عشق رسول اللہ ﷺ میں گزاری نہ صرف انکا نعتیہ کلام بلکہ ان کی ہر ہر تحریر عشق رسول اللہ ﷺ سے لبریز ہے ،وہ ساری ملت اسلامیہ کو درس محبت دیتے رہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے قرآن مجید کا نہایت سلیس اردو زبان میں ”کنزالایمان“ کے نام سے ترجمہ بھی فرمایا،جو کہ دیگر تراجم پر ہر طرح فوقیت رکھتا ہے اس کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ،جامعہ کراچی نے کنزالایمان کے حوالے سے مقالہ لکھنے پر ڈاکٹر مجید اللہ قادری کو پی ، ایچ، ڈی کی اعلیٰ سند جاری کی ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے عالم اسلام کی رہبری و رہنمائی اور فقہ حنفی کے ارتقا کےلئے اپنی عمر کا زیادہ تر وقت فتاویٰ نویسی میں گزارا ۔آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ” فتاویٰ رضویہ“کے نام سے بارہ ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے ،جسے ماہرین علم و فن نے ”فقہ حنفیہ کا جامع انسائیکلوپیڈیا“قرار دیا ہے ۔ہندوستان کے ڈاکٹر حسن رضا خان اعظمیٰ نے پٹنہ یونیورسٹی بہار سے اور ڈاکٹر محمد انوار خاں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو (سندھ)سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی فقہی خدمات کے حوالے سے ڈاکٹریت(P,H,D)کیا ہے ،یہ فتاویٰ اردو ،عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ نثر اور منظوم دونوں فتاویٰ پر مشتمل ہے ۔
بر صغیرکے ممتاز حنفی مذہبی اسکالر اور مورخ مولانا کوثر نیازی ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کو ”امام ابو حنیفہ ثانی“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:فقہ حنفی میں دوکتابیں مستند ترین ہیں ۔ان میں سے ایک ”فتاویٰ عالمگیریہ “ہے جو دراصل چالیس علماءکی مشترکہ خدمت ہے جنہوں نے فقہ حنفی کا ایک جامع مجموعہ ترتیب دیا ۔دوسرا ”فتاویٰ رضویہ“ ہے جس کی انفرادیت یہ ہے کہ جو کام چالیس علماءنے مل کر انجام دیا وہ اس مرد مجاہد (اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ)نے تن تنہا کر کے دکھایا اور یہ مجموعہ ”فتاویٰ رضویہ“ ،”فتاویٰ عالمگیریہ“سے زیادہ جامع ہے اور میں نے آپ کو ”امام ابو حنیفہ ثانی“کہا ہے وہ صرف محبت یا عقیدت میں نہیں بلکہ فتاویٰ رضویہ ،کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ اس دور کے امام ابو حنیفہ ہیں۔“(امام احمد رضا کانفرنس1993ءمنعقد اسلام آباد میںخطاب)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے عالم اسلام کی دینی اور معاشرتی اصلاح کے علاوہ برصغیر کے میدان سیاست میں بھی تجدیدی کارنامے انجام دیئے ،آپ کے افکار سے میدان سیاست کے نامور شہسوار وں نے رہنمائی حاصل کی ،آپ نے سب سے پہلے 1893ءاور 1900ءمیں پٹنہ کے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس میں اس وقت ”دو قومی نظریہ“ کا پرچار کیا جب قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسے رہنما بھی متحدہ قومیت کے حامی تھے ۔آج کا خوشحال پاکستان اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے اسی ”دوقومی نظریہ “ کا ثمر ہے چنانچہ پاکستان کے ممتاز سیاستدان جسٹس(ر) سید غوث علی شاہ سابق وزیر برائے تعلیم حکومت پاکستان فرماتے ہیں کہ ”اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت روشنی کا ایسا میناہ نور ہے جس نے اتھاہ تاریکی اور مایوسی کے دور میںمسلمانان ہند کی رہنمائی اپنے علم و عمل کے ذریعے فرمائی پاکستان کا قیام بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ جیسی ہی شخصیات کی قربانیوں کا ثمر ہے ۔“ (معمار پاکستان صفحہ28)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے پیش کردہ اصولوں کی روشنی میں ان کے صاحبزادگان ،تلامذہ اور عقیدت مند علماءو مشائخ احناف نے تحریک پاکستان میں جو خدمات سر انجام دیں وہ تاریخ کا ایک انمول باب ہیں ،پاکستان کی تحریک کو کبھی فروغ حاصل نہ ہو تا اگراعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سالوں پہلے مسلمانوں کو ہندوؤںاور انگریز کی چالوں سے باخبر نہ کرتے ۔ان کے سیاسی افکار کے جاننے اور سمجھنے کےلئے ان کی درج ذیل تصانیف قابل مطالعہ ہیں ۔ ٭انفس الفکر٭اعلام الاعلام ٭تدبیر فلاح ونجات واصلاح٭دوام العیش ٭المحجة الموتمنہ٭الطاری الداری۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے ترجمہ قرآن”کنزالایمان“ اور ”فتاویٰ رضویہ“کے علاوہ تقریباً ہزار کے قریب کتب و رسائل تحریر فرمائے جو کہ ہر علم و فن اور عنوان کا احاطہ کرتے ہوئے فقہ حنفی کا احسن انداز میں تعارف و تحفظ کرتے ہیں شاید ہی کوئی ایسا علم ہو جس میں آپ کی کوئی نہ کوئی تحریر یادگار نہ ہو۔علم و عرفان اور فقہ حنفی کا یہ سورج اگر چہ 1921ءمیں غروب ہو گیا مگر اس کی کرنیں آج بھی عالم اسلام اور اقلیم حنفیت کو منور و تابان کئے ہو ئے ہیں ۔بلکہ جب تک کائنات کا وجود ہے عشاقان رسالت آپ کی عشق رسول ﷺسے معطرتحریرات سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے اور آپ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 25صفر المظفر کو پورے عالم اسلام میں منایا جاتا ہے ۔