Unknown
FATAWA RAZWIA
فتاویٰ رضویہ
منتخب مسائل فتاویٰ رضویہ
Muntakhab Masail-e-Fatawa Razwia........
Cont. for Copies..FATAWA RAZWIA فتاویٰ رضویہ
...8521889323، 9973362000

Unknown

امام احمد رضا خاں قادری محدث بریلوی رحمة اللہ علیہ
کے اصلاحی کارنامے


امام اہلسنت، مجدد دین وملت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت عالم اسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ فقہ حنفی اور عالم اسلام کے لئے ان کی علمی خدمات آسمان علم و فن کی فضاؤں میں بادل بن کر چھائی ہوئی ہیں ۔ عصر حاضر اور ماضی قریب میں ان جیسا صاحب علم وفن اور عارف حق کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔وہ انقلاب 1857ءسے ایک سال قبل 14جون 1856ءکو ہندوستان کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے اور وہیں انتقال ہوا۔ اپنی جائے پیدائش ”بریلی “کی نسبت سے ”فاضل بریلوی“ اور ”محدث بریلوی“ کے القاب سے مشہور ہوئے ۔چار سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ اور صرف تیرہ برس دس ماہ پانچ دن کی عمر میں جمیع علوم دینیہ کی تکمیل سے مشرف ہوئے ۔1869ءمیں سند فراغت حاصل کی اور اسی روزوقت کے عظیم عالم دین اپنے والد مولانا نقی علی خاںحنفی رحمة اللہ علیہ کے مسند افتاءجو کہ ہندوستان کے حنفی دارلافتا میں ممتاز تھی پر بیٹھ کر پہلا فتویٰ تحریر فرمایا۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد اور اس وقت کے جید علمائے احناف سے علم حاصل کیا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ علوم دینیہ کی طرح علوم جدیدہ وقدیمہ پر بھی مہارت رکھتے تھے ۔مورخین نے تقریباً پچپن (55)علوم و فنون میں ان کی مہارت کا ذکر کیا ہے ۔وہ جدید سائنس پر بھی گہری نظر رکھتے تھے چنانچہ عالم اسلام کے نامور ایٹمی سائنسدان محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خاں فرماتے ہیں : ”اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی ہمہ جہت شخصیت کا ایک اہم پہلو سائنس سے شناسائی بھی ہے ۔سورج کو حرکت پذیر اور محوگردش ثابت کرنے کے ضمن میں آپ کے دلائل بڑے اہمیت کے حامل ہیں ۔(ایک ہمہ جہت سائنسدان ،صفحہ3مطبوعہ کراچی)

علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ ”علوم باطنی“ سے فیضیاب ہونے کےلئے ہندوستان کے عظیم روحانی مرکز ”خانقاہ عالیہ برکاتیہ “ مارہرہ حاضر ہوئے اور حضرت سید ی شاہ آل رسول مارہروی رحمة اللہ علیہ سے سلسلہ قادریہ میں ارادت مندی حاصل کی۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ عقائد و افکار میں متقدمین اور سلف صالحین کے پیروتھے ۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے مقلد اور مشرباً ”قادری“ تھے ۔انہوں نے مذہب کے علاوہ علم و فن اور سیاست میں بھی تجدید واحیا کے اہم فرائض سر انجام دئےے اسی بنا پر علماءعرب و عجم نے انہیں ”چودھویں صدی کا مجدد“قرار دیا۔یاد رہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے کسی نئے مذہب یا مسلک کی بنیاد نہیں رکھی اور نہ ہی بریلویت کوئی نیا مذہب ہے۔بلکہ شہرِ بریلی کے عقیدت مند بریلوی کہلاتے ہیں ۔ مسلکاً سب اہلسنت وجماعت سواد اعظم کے افراد ہیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تمام زندگی عقائد اسلام اور ناموس رسالت کی پہراداری میں گزاری ۔ان کا قلم تمام اعتقادی فتنوں کا تعاقب کرتا رہا ۔اسلام کی عزت و حرمت کے مقابل وہ کسی کو خاطر میںنہ لاتے تھے ۔ا ن کے بے لاگ فتاویٰ اور علمی تنقید و گرفت درحقیقت ان کی غیرت ایمانی اور عشق رسول ﷺ کا مظہر ہے ۔ جس کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا ۔

قادیانیت موجودہ صدی میں اسلام کے خلاف سب سے زیادہ خوفناک سازش ہے جومسلمان کےلئے کینسر کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے اس فتنہ کے خلاف علمی و قلمی جہاد کیا ۔آپ کے فتاویٰ نہ صرف قادیانیت بلکہ مرزائیت نوازوں کے خلاف بھی شمشیر بے نیام ثابت ہوئے ۔فتنہ قادیانیت کی نقاب کشائی میں آپ کے دیگر فتاویٰ کے علاوہ درج ذیل رسائل نے اہم کردار ادا کیا۔٭السوءوالعقاب علی المسیح الکذاب(1320ھ) ٭قھر الدیان علی مرتد بقادیان(1323ھ) ٭الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی (1340ھ) ٭المبین ختم النبین(1326ھ) ٭ختم النبوة۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں جو مخالفین نے پراپےگنڈہ عوام میں پھیلا رکھا ہے کہ وہ ہر ایک کو کافر قرار دےتے تھے غلط ہے۔ بلکہ وہ ہر کلمہ گو کو مسلمان قرار دیتے مگر روح اسلام کو بھی اس کے قول و فعل میں جیتا جاگتا دیکھنا چاہتے تھے اس کے ساتھ ساتھ تاریخ و تہذیب اور تمدنی عمل کے پیش نظر وہ اس حد تک چھوٹ دیتے تھے کہ جس حد تک قول و عمل شریعت سے متصادم نہ ہو۔ وہ ہر اس شخص کو جو دین میں نئی نئی باتیں داخل کرتا بدعتی قرار دیتے اور ہر اس شخص کا تعاقب کرتے جو ان کی نظر میں تجدید کے بہانے بے راہ روی اور خرافات ایجاد کرتا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے معاشرہ کی خلاف شرع عادات اور رسوم پر گہری تنقید کی اور اس طرح تجدید و اصلاح کی ذمہ داری بھی ہوتی گئی ۔اسلامی معاشرہ کے بعض افراد فرائض و سنن چھوڑ کر مستحبات و مباحات کے پیچھے لگے رہتے ہیں ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی نظر میں ایسے لوگوں کی نیکیاں مردود ہیں۔کیونکہ فرائض وہ سنن کو چھوڑ کر مسلمان معرفت و حقیقت کی منازل طے نہیں کر سکتا ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ شریعت و طریقت کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کے خلاف تھے ۔اس ضمن میں انہوں نے ایک مستقل رسالہ”مقال العرفا“ بھی تحریر کیا ہے ۔وہ پیری و مریدی کے قائل اور اصلاح باطن کے لئے اسے مفید قرار دیتے مگر اس روحانی نظام کے فروغ کی آڑمیں خرافات کے ابلاغ اور غیر شرعی حرکات کے سخت خلاف تھے ۔وہ اولیاءاللہ کے مزارات پر حصول برکت کے لئے جانا جائز قرار دیتے ہیں ۔ مگر عورتوں کا مزارات پر بے پردہ جانا مناسب خیال نہ فرماتے تھے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے غیر اللہ کے لئے سجدہ عبادت کو کفر و شرک اور سجدہ تعظیمی کو حرام قرار دیا ہے ۔وہ گھر میں مجسمے سجانے اور تصاویر لگانے کے بھی خلاف تھے ،برصغیر میں بعض لوگ حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ و دیگر اولیاءکرام اور ”براق“ کی فرضی تصاویر لگاتے ہیں ۔ وہ اس کے سخت خلاف تھے ۔مسلمانوں میں فاتحہ ،سوئم ، چہلم ،برسی اور عرس کا عام رواج ہے ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ اسے اس کی روح کے ساتھ صحیح اور جائز قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اس میں غیر ضروری لوازمات کو بے اصل قرار دیتے ہیں ۔وہ میت کے ایصال ثواب کے لئے غربا کو فوقیت دیتے ہیں اور اس کے سخت خلاف ہیں کہ برادری کے لوگوں کو بلا کر انہیں کھاناکھلانے کا اہتمام کیا جائے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ قبروں پر لوبان ،اگر بتی وغیرہ جلانے کو مال کا اسراف قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک قبروں پر پھول ڈالنا اور ایصال ثواب کرناجائز ہے مگر ایک سے زائد کپڑے کی چادریں قبر پرڈالنے سے منع کرتے ہیں اور چادر کے بدلے صاحب مزار کے نام کی خیرات کرنا اور فقرا کو کھانا کھلانا افضل قرار دیتے ہیں ۔وہ مزامیر کے بغیر نعت و منقبت کے قائل ہیں ۔ خود ان کا نعتیہ دیوان”حدائق بخشش“ کے نام سے مشہور و عام ہے ان کا عربی ”بساتین الغفران“ اور فارسی کلام ”ارمغان رضا“ کے نام سے ملتا ہے ،جبکہ انکا نعتیہ سلام اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔حضور اکرم نور مجسم ﷺ کی بارگاہ میں شعراءکرام نے اپنی اپنی حسن نیت اور توفیق الہٰی کے باعث سلامیہ قصائد لکھ کر نذرانہ عقیدت پیش کیا مگراعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے سلام:
مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
کو ایسا قبول عام نصیب ہوا کہ ایک صدی گزرجانے کے باوجود آج بھی پورے برصغیر اور بلاد اسلام میں فضا ئیں اس کی والہانہ آواز سے گونج رہی ہیں ۔ان کا عشق رسول اللہ ﷺ لاثانی تھا انہوں نے ساری زندگی عشق رسول اللہ ﷺ میں گزاری نہ صرف انکا نعتیہ کلام بلکہ ان کی ہر ہر تحریر عشق رسول اللہ ﷺ سے لبریز ہے ،وہ ساری ملت اسلامیہ کو درس محبت دیتے رہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے قرآن مجید کا نہایت سلیس اردو زبان میں ”کنزالایمان“ کے نام سے ترجمہ بھی فرمایا،جو کہ دیگر تراجم پر ہر طرح فوقیت رکھتا ہے اس کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ،جامعہ کراچی نے کنزالایمان کے حوالے سے مقالہ لکھنے پر ڈاکٹر مجید اللہ قادری کو پی ، ایچ، ڈی کی اعلیٰ سند جاری کی ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے عالم اسلام کی رہبری و رہنمائی اور فقہ حنفی کے ارتقا کےلئے اپنی عمر کا زیادہ تر وقت فتاویٰ نویسی میں گزارا ۔آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ” فتاویٰ رضویہ“کے نام سے بارہ ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے ،جسے ماہرین علم و فن نے ”فقہ حنفیہ کا جامع انسائیکلوپیڈیا“قرار دیا ہے ۔ہندوستان کے ڈاکٹر حسن رضا خان اعظمیٰ نے پٹنہ یونیورسٹی بہار سے اور ڈاکٹر محمد انوار خاں نے سندھ یونیورسٹی جامشورو (سندھ)سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی فقہی خدمات کے حوالے سے ڈاکٹریت(P,H,D)کیا ہے ،یہ فتاویٰ اردو ،عربی ،فارسی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ نثر اور منظوم دونوں فتاویٰ پر مشتمل ہے ۔

بر صغیرکے ممتاز حنفی مذہبی اسکالر اور مورخ مولانا کوثر نیازی ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کو ”امام ابو حنیفہ ثانی“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:فقہ حنفی میں دوکتابیں مستند ترین ہیں ۔ان میں سے ایک ”فتاویٰ عالمگیریہ “ہے جو دراصل چالیس علماءکی مشترکہ خدمت ہے جنہوں نے فقہ حنفی کا ایک جامع مجموعہ ترتیب دیا ۔دوسرا ”فتاویٰ رضویہ“ ہے جس کی انفرادیت یہ ہے کہ جو کام چالیس علماءنے مل کر انجام دیا وہ اس مرد مجاہد (اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ)نے تن تنہا کر کے دکھایا اور یہ مجموعہ ”فتاویٰ رضویہ“ ،”فتاویٰ عالمگیریہ“سے زیادہ جامع ہے اور میں نے آپ کو ”امام ابو حنیفہ ثانی“کہا ہے وہ صرف محبت یا عقیدت میں نہیں بلکہ فتاویٰ رضویہ ،کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ اس دور کے امام ابو حنیفہ ہیں۔“(امام احمد رضا کانفرنس1993ءمنعقد اسلام آباد میںخطاب)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے عالم اسلام کی دینی اور معاشرتی اصلاح کے علاوہ برصغیر کے میدان سیاست میں بھی تجدیدی کارنامے انجام دیئے ،آپ کے افکار سے میدان سیاست کے نامور شہسوار وں نے رہنمائی حاصل کی ،آپ نے سب سے پہلے 1893ءاور 1900ءمیں پٹنہ کے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس میں اس وقت ”دو قومی نظریہ“ کا پرچار کیا جب قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال جیسے رہنما بھی متحدہ قومیت کے حامی تھے ۔آج کا خوشحال پاکستان اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے اسی ”دوقومی نظریہ “ کا ثمر ہے چنانچہ پاکستان کے ممتاز سیاستدان جسٹس(ر) سید غوث علی شاہ سابق وزیر برائے تعلیم حکومت پاکستان فرماتے ہیں کہ ”اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کی شخصیت روشنی کا ایسا میناہ نور ہے جس نے اتھاہ تاریکی اور مایوسی کے دور میںمسلمانان ہند کی رہنمائی اپنے علم و عمل کے ذریعے فرمائی پاکستان کا قیام بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ جیسی ہی شخصیات کی قربانیوں کا ثمر ہے ۔“ (معمار پاکستان صفحہ28)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کے پیش کردہ اصولوں کی روشنی میں ان کے صاحبزادگان ،تلامذہ اور عقیدت مند علماءو مشائخ احناف نے تحریک پاکستان میں جو خدمات سر انجام دیں وہ تاریخ کا ایک انمول باب ہیں ،پاکستان کی تحریک کو کبھی فروغ حاصل نہ ہو تا اگراعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ سالوں پہلے مسلمانوں کو ہندوؤںاور انگریز کی چالوں سے باخبر نہ کرتے ۔ان کے سیاسی افکار کے جاننے اور سمجھنے کےلئے ان کی درج ذیل تصانیف قابل مطالعہ ہیں ۔ ٭انفس الفکر٭اعلام الاعلام ٭تدبیر فلاح ونجات واصلاح٭دوام العیش ٭المحجة الموتمنہ٭الطاری الداری۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں حنفی فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے ترجمہ قرآن”کنزالایمان“ اور ”فتاویٰ رضویہ“کے علاوہ تقریباً ہزار کے قریب کتب و رسائل تحریر فرمائے جو کہ ہر علم و فن اور عنوان کا احاطہ کرتے ہوئے فقہ حنفی کا احسن انداز میں تعارف و تحفظ کرتے ہیں شاید ہی کوئی ایسا علم ہو جس میں آپ کی کوئی نہ کوئی تحریر یادگار نہ ہو۔علم و عرفان اور فقہ حنفی کا یہ سورج اگر چہ 1921ءمیں غروب ہو گیا مگر اس کی کرنیں آج بھی عالم اسلام اور اقلیم حنفیت کو منور و تابان کئے ہو ئے ہیں ۔بلکہ جب تک کائنات کا وجود ہے عشاقان رسالت آپ کی عشق رسول ﷺسے معطرتحریرات سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے اور آپ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 25صفر المظفر کو پورے عالم اسلام میں منایا جاتا ہے ۔

Unknown

منقبت درشان
 حضور مفتی شبیر احمد صابرالقادری اندولوی علیہ الرحمہ
کلام: فرحت صابری رضوی

دین کی دیتے ہوئے تعلیم رخصت ہوگئے
چھوڑ کر علماءکی پوری ٹیم رخصت ہوگئے 
طالبان علم کے مابین وہ کرتے ہوئے
علم دین مصطفیٰ تقسیم رخصت ہوگئے 
جنکے فیضان وکرم سے آج بھی معمور ہے
اہل سنت کی سبھی تنظیم ،رخصت ہوگئے
ساقئی کوثر شہِ جودوعطا کے ہاتھ سے
نوش کرنے کوثروتسنیم رخصت ہوگئے
سونا سونا لگ رہا ہے آج یہ سارادیار
پیر کامل لائق تکریم رخصت ہوگئے
جنت الفردوس میں اللہ دے اعلیٰ مقام
تھی شریعت کی جنھیں تفہیم رخصت ہوگئے
کیسے اپنے سے بڑوں کے پاس رہنا چاہئے
ہم کو سکھلا کر ادب تعظیم رخصت ہوگئے
ہم بھلا سکتے نہیں ان کے کسی احسان کو
دیکے فرحتؔ زیست کی تقویم رخصت ہوگئے


Unknown
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءْ(القرآن)
مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَمْ(حدیث)

نمونۂ سلف استاذ الاساتذہ ممتاز المدرسین عمدۃ المقررین پیر طریقت رہبر راہِ شریعت حضرت العلام الحاج الشاہ المفتی
 محمد شبیر احمد صابرالقادری نوراللہ مرقدہٗ
مہد سے لحد تک
(مختصر تعارف وخدمات)

مرتب:
فرحتؔ صابری رضوی

ناشر
صابری اکیڈمی دارُالعلوم قادریہ مدینۃ العلوم ، اندولی، سیتامڑھی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیر اہتمام : حضرت علامہ ومولانا محمدرضا صابری مصباحی 
(خلف اکبر حضرت مفتی صاحب قبلہ نوراللہ مرقدہٗ)
نام کتاب : حضرت مفتی شبیر احمد مہد سے لحد تک
مرتب : فرحت ؔ صابری رضوی
اضافہ ونظر ثانی : احمدرضا صابری
کتابت وطباعت : احمدگرافکس،قطب الدین لین ، سبزی باغ، پٹنہ
سن طباعت : فروری 2013
تعداد : (باراول) پانچ سو
صفحات : ۳۲
ناشر : صابری اکیڈمی دارُالعلوم قاریہ مدینۃ العلوم ، اندولی

ملنے کے پتے:
٭ صابری اکیڈمی دارُالعلوم قاریہ مدینۃ العلوم ، اندولی، سیتامڑھی
٭ احمد گرافکس ، قطب الدین لین ، دریاپور،سبزی باغ، پٹنہ ۴
٭ فیضی کتاب گھر، مہسول چوک، سیتامڑھی
٭ رضا بک ڈپو، پریہارچوک سیتامڑھی

فہرست مضامین
نمبر شمار
مضامین
صفحہ
۱
پیش لفظ : ڈاکٹر امجدرضا امجد، پٹنہ
۴
۲
اجمالی خاکہ : مولانا احمدرضا صابری
۷
۳
شجرۂ نسب
۱۱
۴
خاندان اور آبائے کرام
۱۲
۵
آغاز سخن
۱۵
۶
آغاز تعلیم ، سفر تعلیم اور تکمیل
۱۸
۷
درس وتدریس
۲۴
۸
اجازت وخلافت
۲۵
۹
علالت وسفر آخرت
۲۶
۱۰
مشاہیر تلامذہ
۳۱
۱۱
گلشن قادریہ کے مہکتے ہوئے پھول
۳۲
۱۲
کون مفتی شبیر احمد؟
۳۳
۱۳
منقبت : فرحتؔ صابری رضوی
۳۶
۱۴
یادِرفتگاں
۳۷
۱۵
اعتذار : مولانا محمدرضا صابری مصباحی
۴۰
٭٭٭
تقریظ
ڈاکٹرمفتی امجدرضا امجد
(مدیر رضا بک ریویو) ادارہ شرعیہ ، پٹنہ بہار
بیاکہ من زخم پیر روم آوردم 
مئے سخن کہ جواں تر زبادہ عنبی ست
صوبہ بہار اپنی علمی زرخیزی اوردینی وملی خدمات میںپیشوائی کے سبب پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہے ۔یہاں کی زمین بڑی نم اور زرخیزواقع ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ علم وادب کاتقریباً ہر گوشہ اس مٹی سے پیدا ہونے والے افراد کے تابندہ نقوش سے مستنیرہے ۔مذہب عشق تصوف ادب تحقیق تنقیدتاریخ تذکرہ اور سائنس جس رخ سے دیکھیںصوبہ بہار مالامال ہے ۔بہار کی مٹی میںان تمام خوبیوںکے ساتھ ایک خوبی اور بھی ہے جسے اہل دل اہل نظر اوراہل عشق ’’انکسار‘‘کہتے ہیں۔یہ انکسار کوٹ کوٹ کر ان کے اندر پیوست ہے۔ اس لئے بہت کچھ اوصاف رکھنے کے بعد بھی یہ’’وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم ‘‘کا مجسمہ نظر آتے ہیں۔
ہمارے ممدوح حضرت علامہ مفتی شبیر احمد صابر القادری صاحب بھی علم وعمل کے دھنی اور تدریس وافتاکے مسند نشیں تھے ان کے اندر تحقیق وتنقید ،خطابت وتدریس اور تبلیغ وتنظیم کی ساری صلاحیتیں موجود تھیں جس کے نمونے چشم حقیقت بیں آج بھی دیکھ سکتی ہے مگر وقت کا ایسا مردحق آشنادنیا میں اپنی سادہ زندگی کی وہ مثال چھوڑگیا کہ بڑے بڑے صاحبان جبہ ودستار کے لئے اصلاح حال کی دلیل بن گئی ۔
حضرت مفتی شبیر صاحب کے شاگردوں کی اچھی خاصی تعداد میرے گاؤں ’’رضاباغ گنگٹی‘‘میں موجود ہے ان میں مولانا مبین عالم خاں،مولانا صفی اللہ خاں نوری،محمد شکیل احمد خاں،محمد شعیب خاں ،عزیزی، عرش عالم خاںکانام مجھے یاد آرہاہے اخیر تینوں افراد نے اپنی دنیا الگ تلاش کرلی جب کہ اول الذکر دونوں حضرات ابھی بھی خدمت دین متین سے وابستہ ہیں ۔ایسے سینکڑوں تلامذہ کے توسط سے حضرت مفتی شبیر صاحب قبلہ عالمی سطح پر ابھی بھی خدمت دین اور مسلک اعلیٰ حضرت کی تعمیم وتشہیرمیںمصروف ہیں ۔تاہم ان کی رحلت جماعت اہل سنت کے لئے صدمے اور غم واندوہ کا سبب ہے اور ایک عالم دین کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اس کی رحلت صرف خاندان پر اثر انداز ہونے کے بجائے جماعتی غم میں مدغم ہوجائے۔ پیغمبر اسلام حضور ﷺ کا فرمان مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتَ الْعَالَمْ کا مفہوم بھی یہی ہے ۔اس تناظر میں دیکھیں تو حضرت مفتی شبیر احمد صاحب قبلہ کے جنازے میں ہزاروں کے ازدہام نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی  موت ایک فرد کی نہیں بلکہ عالم کی موت ہے۔
حضرت مفتی صاحب نے اپنے پیچھے کارناموں کی ایک دنیا چھوڑی ہے یہ دنیا وہ ہے جس میں ہر طرف ان کے اخلاق وکردار کی چمک ،عشق ووفاکی خوشبو،ایمان وایقان کا اجالا،غیرت ایمانی کا جوش اور جماعتی سرگرمی کی سرمستیاں فضاؤں میں رچی بسی معلوم ہوتی ہیں ۔رمزؔ عظیم آبادی نے ٹھیک ہی کہا ہے   ؎
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکے ناممکن ہے
نقش قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر بن جائیں گے
ان کی حیات وخدمات کا ایک سرسری جائزہ پیش نظر کتاب ’’ مفتی شبیر احمد لحد سے مہد تک ‘‘میں پیش کیا جارہاہے اسے ہمارے محترم دوست مولانا فرحتؔ صابری نے مرتب فرمایاہے جناب احمد رضاصابری نے اس میں جذبات کے رنگ بھرے ہیں اور بھیگی پلکوں سے پڑھنے کے لئے ہماری نذر کردیاہے ۔یہ کتاب اُس کتاب کا مقدمہ ہے جو حضرت مفتی صاحب کے سالانہ عرس میں طبع ہونی ہے گویا بیتاب جذبوں کی تسکین کے لئے ابھی بارش رحمت کا پہلا قطرہ فراہم کردیا گیا ہے، قطرے میں دریا دیکھنے والے حضرات یقیناً اِس سے شاد کام ہوں گے اور دریاکے متلاشی حضرات کے لئے وہ بھی اپنے مشاہدات کو ان کی تسکین کا سامان بنانے کی کوشش کریں گے۔
خدائے تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کے جملہ اولاد امجاد اور ان کے تمام متعلقان کو شاد وآباد رکھے اور ان کے افکار کو عام وتام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین 

امجدرضا امجد



اجمالی خاکہ
احمدرضا صابری

نام :
محمد شبیر احمد صابرالقادری
القاب :
 استاذالاساتذہ،نمو نۂ سلف، آفتاب چرخ سنیت، ماہتاب فلک رضویت، شمع بزم مسلک اعلیٰ حضرت، مقبولِ بارگاہِ مفتی اعظم ہند، ممتاز المدرسین، عمدۃ المقررین، پیر طریقت، رہبر راہِ شریعت، حضرت العلام الحاج الشاہ المفتی
وطن :
موضع اندولی، بلاک پریہار، ضلع سیتامڑھی (بہار)
ولادت :
 ۵؍ فروری ۱۹۵۲؁ھ میں اپنے آبائی مکان میں ہوئی۔
آغازتعلیم
۱۹۵۷؁ء میں گاؤں ہی کے مکتب سے آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
 تعلیمی درسگاہیں :
مدرسہ اشرف العلوم ، کنہواں، سیتامڑھی۔ موضع کسمہا، مشرقی چمپارن۔دارالعلوم منظر اسلام محلہ سوداگران ، بریلی شریف یوپی۔
تکمیل فضیلت :
۱۹۷۰؁ء میںدارالعلوم منظر اسلام محلہ سوداگران ، بریلی شریف یوپی سے فضیلت کی تکمیل ہوئی۔
تکمیل افتاوفراغت :
۱۹۷۵؁ء میں بریلی شریف سے ہوئی۔
معروف اساتذہ کرام:
٭ حضرت علامہ مولانا محمد احسان علی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان محدث فیض پوری، اورائی ، مظفرپور
٭ حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان ، مونگیر( مصنف : بدایۃ النحو، بدایۃ الصرف وغیرہ )
٭ امام المنطق وفلسفہ حضرت علامہ مولاناخواجہ مظفر حسین صاحب دام ظلہ، پورنیہ
٭ حضرت علامہ مولانا سید عارف حسین صاحب قبلہ مدظلہ العالی، نانپارہ، ضلع بہرائچ، یوپی
تدریسی خدمات
 کچھ دنوں اتر پردیش کے ضلع قنوج اور کانپور کے اداروںمیں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد صوبہ بہار تشریف لائے اور اپنے ضلع سیتامڑھی کی ایک مردم خیر بستی ’بہر ہ‘ جو میجر گنج کے آس پاس ہے ، کچھ دنوں اس کے اطرف وجوانب کے تشنگانِ علوم نبویہ کو سیراب کرتے رہے۔بعدازاں مدرسہ اسلامیہ فیض الغرباء دھرمپور بھانڑسر سرلاہی نیپال تشریف لے گئے۔ اس کے بعد موضع کنہواں کے ضلعی مرکزی ادارہ الجامعۃ الاسلامیہ رضاء العلوم تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً پندرہ سال تک اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے بعد اپنےقائم کردہ خوابوں کی تعبیر جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم آکر اس کی تعلیمی وتعمیری ترقی کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔
تعمیری خدمات :
جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم آپ کی شاہکار تعمیری یادگار ہے اس کے علاوہ آپ نے متعدد مدارس ومساجدکا سنگ بنیاد رکھا جو ملک کے مختلف مقامات پر واقع ہیں۔
اصلاحی خدمات :
وعظ وتقریر، بحث ومباحثہ، ردبدعات ومنکرات  کے ذریعے آپ نے قوم وملت کی اصلاح وفلاح کا شاندار کارنامہ انجام دیا۔کئی ساری مذہبی تحریکوں کے روحِ رواں رہے اور علاقائی سطح پر علماء کرام کئی انجمنوں کی سرپرستی بھی فرمائی۔
دعوتی اسفار :
آپ نے مسلک اعلحضرت کی دعوت عام کرنے کیلئے سینکڑوں اجلاس و محافل کی سرپرستی فرمائی اور بہت سارے ریاستی دورے بھی فرمائے۔
حج وزیارت :
۲۰۰۹؁ء میںسفر حج وزیارت سے مشرف ہوئے۔
بیعت
قطب عالم سرکار مفتی اعظم ہند علامہ الشاہ مصطفےٰ رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہٗ سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔
خلافت :
٭حضرت علامہ مولانا توصیف رضا صاحب بریلی شریف ٭حضرت علامہ مولانا مفتی سعید الرحمن صاحب ، پوکھریرا شریف ضلع مظفرپو٭حضور مناظر اہل سنت شیر بہار حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اسلم رضوی قد سرہ (خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند ومحبوب قطب مدینہ )
وصال :
 ۱۳ ؍صفرالمظفر۱۴۳۴؁ھ کی رات مطابق ۲۸؍ دسمبر۲۰۱۲؁ء جمعہ کا دن گزار کر سنیچر کی شب میں تقریباً نو بج کر ۴۸؍ منٹ پر اپنے مالک حقیقی سےجاملے۔ جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم سے عین متصل پورب کی جانب آپ کی آخری آرامگا ہ ہے۔ 
اولادامجاد :
٭مولانا محمدرضا صابر ی مصباحی (خلف اکبر) ٭احمدرضا صابری٭حامدرضا جیلانی ٭ڈاکٹر مصطفےٰ رضا ربانی٭غزالہ شاہین ٭ حافظ وقاری توقیر رضا رحمانی ٭تنویر رضا حقانی ٭ تفسیر رضا یزدانی٭حافظ تطہیر رضا نعمانی 
٭٭٭



شجرۂ نسب

ابوالجد : حضرت شیخ محمد غوثی رحمۃ اللہ علیہ
جد امجد : حضرت شیخ محمد عظمت علی رحمۃ اللہ علیہ
والد ماجد : حضرت شیخ فوجدار علی رحمۃ اللہ علیہ

(۱) محمد ادریس (۲) سمیلہ خاتون
(۳) حافظ محمد جمیل اختر (۴) حاجی محمد ظفیر عالم
(۵) مفتی شبیر احمد (۶) مولانا جابر حسین
(۱) مولانا محمدرضا صابری (۲) احمدرضاصابری
(۳) محمد حامدرضاجیلانی (۴) ڈاکٹر مصطفےٰ رضاربانی 
(۵) غزالہ شاہین (۶) حافظ توقیر رضا رحمانی
(۷) محمد تنویر رضا حقانی (۸) محمد تفسیر رضایزدانی
(۹) حافظ محمد تطہیر رضانعمانی 
٭٭٭

خاندان اور آباء کرام

جدالامجدحضرت شیخ غوثی مرحوم ایک دیندار ، نیک طبیعت، صاحب جاہ وحشمت ، قدسی صفت ، اخلاق کریمانہ کے دھنی اور اوصاف حمیدہ کے پیکر جمیل تھے۔ بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ حق گوئی اور حق پسندی آ پ کا طرۂ امتیاز تھا۔ بڑے خلیق وملنسار اور کریم ومہربان تھے۔ فیاض طبیعت کے مالک تھے۔ عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ علاقہ کے لوگ اپنے دینی دنیوی معاملات میں آ پ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ آپ کی لوح جبیں پہ عظمت وبزرگی کے آثار ہویدا تھے۔ آپ کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ بڑا پاکیزہ اور روشن وتابناک تھا۔ آپ کے تین ہونہار لائق وفائق فرزندان ارجمند تھے۔ 
جن میں حضرت شیخ عظمت کریم مرحوم نے والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مثالی زندگی گزاری۔ اپنے کردار گفتار اور علم وعمل سے ثابت کردیا کہ ولد صالح کی اصل پہچان کیا ہوتی ہے ’’بالائے سرش زہوش مندی ‘‘ کے مکمل نمونہ تھے۔ 
آپ نے بھی بڑی خوشگوار اور کامیاب زندگی بسر کی۔ آپ کے ایک ہی فرزند عزیز حضرت شیخ فوجدار علی مرحوم ومغفور تھے، جو کامیاب معلم، معتمد منشی ، بستی کے بارسوخ زمیندار، منصف مزاج سردار، راسخ الاعتقاد مردمومن ، عظیم المرتبت ، صاحب لیاقت ، کامل الایمان مسلمان، بڑے ہی خوبصورت اور نیک سیرت انسان تھے۔ اللہ آپ کی قبر انور پر رحمتوں کے پھول برسائے۔ 
گاؤں دیہات میں رہتےہوئے علم دین مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی ، شریعت کی پاسداری کا کتنا خیال تھا کہ انہوںنے اس زمانے میں جب کہ آمدورفت کی سہولتیںمیسر نہیں تھیں، سفر کرنا بڑامشکل امر تھا، لوگ اشد ضرورت کے تحت ہی سفر کا ارادہ کرتے تھے، ایسے پریشان کن حالات اور تعلیم وتعلم سے بے رغبتی وبے اعتنائی کے کثافت آلود ماحول میں اپنے لڑکوں کو تحصیل علم کے لیے سعی بلیغ کرنا ایک خدارسیدہ شخص کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ 
اللہ پاک نے آپ کو پانچ فرزند اور ایک لڑکی سے نوازا تھا۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
٭ عالی جناب محمد ادریس مرحوم
٭ علامہ الحاج حافظ محمد جمیل اختر مدظلہ
٭ حضرت الحاج محمد ظفیر عالم مدظلہ
٭ حضرت علامہ الحاج مفتی محمد شبیر احمد قدس سرہٗ العزیز
٭ حضرت علامہ مولانا محمد جابر حسین عزیزی مصباحی مدظلہ العالی
٭ اور ایک لڑکی مرحومہ سمیلہ خاتون تھیں۔
والدہ مرحومہ حمیدہ خاتون جو بڑی نیک دل، پارسا اور پابند صوم وصلوٰۃ معزز خاتون تھیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اور پرورش وپرداخت کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ انہیں کی جدوجہد اور دُعائے سحرگاہی کا نتیجہ ہے کہ ان کے بچے عالم دین بن کر خود بھی روشن ہوئے اور ایک عالم کو روشنی بخشا۔ الحمدللہ آج بھی انہیں کی دُعا کا ثمرہ ہے کہ پورا خاندان علم دین ودنیا سے بہرہ ور ہے۔ اکثر علوم وفنون کے ماہرین اس خاندان کے افراد ہیں جو اظہر من الشمس و ابین من الامس ہے   ؎
شکار ماہ کہ تسخیر آفتاب کروں
میں کس کا نام لوں اور کس کا انتخاب کروں
انشاء اللہ تفصیلی معلومات مفصل سوانح حیات مفتی شبیر احمد علیہ الرحمہ میںملاحظہ فرمائیںگے۔
٭٭٭




آغاز سخن

نمونۂ سلف ، استاذالاساتذہ ممتازالمدرسین ، عمدۃ المقررین پیر طریقت ، رہبر راہِ شریعت حضرت العلام الحاج الشاہ المفتی محمد شبیر احمد صابرالقادری نوراللہ مرقدہ کی ذات ستودہ صفات محتاج تعارف وبیان نہیں۔ آپ کی ہمہ جہت شخصیت عوام وخواص کے مابین منفرالمثال اور یکساں محبوب ومقبول تھی۔ آپ نے علمی وتعمیری میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے ، تدریس وخطابت میں جو جوہر دکھائے ، تعمیری وتنظیمی منصوبوں کا جو خاکہ پیش کیا ، الجامعۃ القادریہ مدینۃ العلوم کی شکل میں جو دینی واسلامی قلعہ بطور یادگار چھوڑا ہے اور نسلاً بعد نسلٍ شاگردوں کا جو لامتناہی سلسلہ قائم کیا ہے ، دنیا اس کا نعم البدل پیش کرنے سے قاصر ہے۔
یہ وہ انمٹ نقوش ہیںجسے صبح قیامت تک زمانہ فراموش نہیں کرسکے گا۔ جب تک دنیا آباد رہے گی قوم مسلم آپ کی عطاکردہ شاہراہِ حیات سے برگشتہ نہیں ہوگی۔ آپ کےعلم وفضل اور عظمت و بلندی کا علم لہراتا رہے گا۔ آپ کے مرقد انور سے لوگ مستفیض و مستنیر ہوتے رہیں گے   ؎
رہتا ہے نام علم سے زندہ ہمیشہ داغ
اولاد سے تو بس یہی دوپشت چارپشت
اپنے اسلاف واکابر کے نقش قدم کو چراغ منزل بناکر اپنے مقاصد ومنصوبہ جات کو پیکر محسوس میں ڈھالنے کے لیے عمر بھر کوشاں وسرگرداں رہے۔ بلاخوف لومۃ ولائم بغیر کسی تھکان کے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہے۔ اپنی ذہنی وفکری صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے رہے ۔
کہنے والوں نے بہت کچھ کہا ، اپنے بھی پرائے کی زبان استعمال کرنے لگے ، ذہنی وجسمانی اذیتیں بھی دی گئیں، طعن وتشنیع کا بازار بھی گرم کیا گیا ، بے قصور ستانے، شب وستم کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں۔علاقے کی باطل قوتوں نے ہرطرح سے دبانا چاہا لیکن آپ ایک سچے دینی مجاہد باحوصلہ مرد آہن اور فلک پیما ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے۔ پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دیا۔حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنے مشن کی تکمیل میں پابہ رکاب رہے۔ تمام تر صعوبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوئے ، حضرت حافظ ملت کے قول’’زمین کے اوپر کام زمین کے نیچے آرام‘‘ پر عمل پیرا رہے۔جس کی قابل تقلیدمثال الجامعۃ القادریہ مدینۃ العلوم کی پرشکوہ ، مستحکم، پائیدار دینی عملی قلعہ کی شکل میں موجود ہے۔ بد مذہبیت اور وبد عقیدگی کے بھیانک ماحول میں خوش عقیدگی وحقانیت کی شمع فروزاں کرنےوالی ذات کو دنیا صابرالقادری کہتی ہے۔
آپ کی اچانک رحلت ملت اسلامیہ کے لیے عظیم سانحہ ہے جس کی تلافی کی صورت بظاہر نظر نہیں آتی۔ دُعا ہے کہ پروردگار عالم جل مجدہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے نعم البدل عطافرمائے۔
جملہ تلامذہ، معتقدین، محبین ، مخلصین اور افراد اہلسنت کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی دیرینہ خواہشوں ، مبارک آرزؤں ، نیک تمناؤں اور تعلیمی تعمیری منصوبوں کو خلوص وللہیت ، عقیدت ومحبت کے جذبوں سے سرشار ہوکر اُسے پایۂ تکمیل تک پہونچائیں، تاکہ ان کی روح مرقد اقدس میں خوش ہو اور ہمیں اس کا اجر عظیم ملے اور ہم تاریخ کے مجرم نہ گردانے جائیں ۔ اس لیے کہ جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ فراموش کردیتی ہے وہ صفحۂ ہستی سے مٹادی جاتی ہے   ؎
مدت کے بعد ہوتے ہیںپیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیںہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
٭٭٭




آغاز تعلیم ، سفر تعلیم اور تکمیل

حسب دستورِ خاندان آپ کی تعلیم وتربیت اپنے گاؤں میں حضرت حافظ  عبدالجلیل مرحوم ( جو پڑوس محلہ پرواہا کے باشندہ تھے) سے حاصل کی۔ جنہیں والد معظم حضرت شیخ فوجدار علی مرحوم نے اپنے خاندان کے بچے اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مقرر کیا تھا۔
جب آپ نے قرآن شریف اور اردو کی ابتدائی کتابوں کی تعلیم بحسن وخوبی مکمل کرلی تو مزید تعلیم کے لیے اس زمانہ کے ایک مشہور مدرسہ اشرف العلوم موضع کنہواں ، ضلع سیتامڑھی ، بہار میں آپ نے داخلہ لیا اور آپ نے وہاں کافیہ وغیرہ تک کتابیںپڑھیں۔ وہاں آپ کے ہم سبق ساتھی اور قریبی دوست حضرت مولاناعلامہ محمد جابر حسین باڑاوی کے بقول: 
’’آپ بے حد ذہین اور خوش گفتار تو تھے ہی ساتھ ہی اپنے درجہ میں ہمیشہ اول رہنے والے، اساتذۂ کے چہیتے تھے، مجھ سے اُن کی کبھی نہیں بنتی تھی کیونکہ امتحانات میں نمبرات کے معاملے میںہمیشہ ہم دونوںمیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہوڑ لگی رہتی تھی، کبھی میں بازی مارجاتا تو کبھی وہ بازی مار جاتے۔ پورے ادارے میں ہم دونوں کی یہ مسابقہ آرائی مشہور تھی اور باقاعدہ گروب بندی ہوچکی تھی۔ کچھ طلباء میرے فیور میں اور کچھ طلباء اُن کے فیور میں۔ اکثرو بیشتر علمی مسائل پر اُن کےساتھ مباحث ہوتے تھے ۔ حضرت بہت ہی یقینی اور مدلل گفتگو کرتے تھے۔ایک بار ہمارے استاد نے ہم دونوںکو بلاکر سمجھا یا کہ جب تم دونوں اتنے ذہین اور باصلاحیت ہو تو آپس میں دوستی کیوں نہیں کرلیتے، ایسے ایک دوسرے کے معاون بنوگے اور صلاحیت میںمزید اضافہ ہوگا۔ اور انہوںنے حضرت کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ آج سے تم دونوں دوست ہو اور ہمیشہ دوست بن کر رہو گے۔ اس کے بعد سے ہم دونوں نے دوستی کرلی اور تادم حیات وہ میرے سب سے قریبی دوست رہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔(آمین)‘‘
وہاں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موضع کسمہامشرقی چمپارن کی ایک معروف درسگاہ میںمتوسطات تک کی تعلیم حاصل کی۔ اُسی دوران بدعقید وں کی صحبت نے ان کے ذہن وفکر کو متاثر کرنا شروع کردیا اور بقول مولانا جابر حسین عزیزی مصباحی (برادرِ اصغر):
’’چونکہ آپ بہت ہی قادرالکلام اور باصلاحیت تھے اس لیے بہت ہی مدلل اور یقین سے بھرپور گفتگو فرماتے تھے۔ اور ہرطرح کی دلیل کو اپنی حاضر جوابی سے کاٹنے کی کوشش کرتے تھےاور وقتاً فوقتاً اپنے مافی الضمیر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرتے۔ جس کی وجہ سے آپ کے برادرِ اکبر حضرت علامہ مولانا الحاج حافظ محمد جمیل اختر صاحب رضوی مدظلہ (والد بزرگوار مولانا الیاس مصباحی وفرحت صابری)  جو سیتامڑھی سے حفظ مکمل کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے بریلی تشریف لے چکے تھے۔ بہت فکر مند تھے کہ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ (مفتی شبیر احمد) مکمل بدعقیدگی کے رنگ میں رنگ جائیںاگر ایسا ہوا تو پورا کا پورا محلہ ہی ان کی زد میں آجائے گا کیوں کہ ان کی صلاحیت، قابلیت اور قادر الکلامی کا اندازہ اُنہیں بخوبی تھا۔
اِسی پس وپیش اور امید وبیم کے بیچ ہچکولے کھاتے ہوئے حضرت حافظ جمیل مدظلہ العالی نے اپنی فریاد بارگاہِ رضا میں اِن جملوںمیں رکھی :
 ’’اے مجدد عصر ، اے پیشوائے اہل سنت آپ کی مخلصانہ جدوجہد نے کتنے گم گشتگانِ راہ کو راہِ ہدایت سے نوازا ہے، میںبھی یہیں کے خوانِ علم کا پروردہ ہوں ، آپ کی بارگاہ میں فریاد لایا ہوں کہ میرا بھائی ابھی حق وباطل کے درمیان فیصلے کے لیے ذہنی کشمکش کا شکار ہے ۔ اس پر نظر کم ہوجائے اوراُسے نشانِ منزل مل جائے۔‘‘
آپ کی یہ التجا مقبول ہوئی اور ہفتہ عشرہ کے اندر ہی مفتی شبیر احمد سیدھے بریلی شریف حاضر ہوئے اوربڑے بھائی سے اِن الفاظ میں گویا ہوئے :
’’ میں دارُالعلوم دیوبند میں داخلہ کرواکر اپنی درسی کتابیں بھی نکلوا چکا تھا۔ لیکن مجھے ایسا لگا کہ یہاں کی تعلیم میرے حق میں نفع بخش نہیں ہے۔ طبیعت مضمحل ہوگئی اور میںنے بریلی شریف کے لیے رخت سفرباندھ لیا۔‘‘
بریلی شریف تشریف آوری کے بعد محب مکرم حضرت مولانا جابر حسین رضوی باڑاوی کی معیت میں اس دورکے علم وعمل کے بحر ناپیدا کنار اساتذۂ کرام کی درسگاہ میں چند اسباق پڑھے ، دل کا دروازہ کھل گیا ، دیوبندکا پندار علم زمین پوس ہوگیا اور اعتراف حقیقت کرتے ہوئے کہنے لگے :
’’ ہمیں تو مغالطے میںرکھا گیا تھا کہ بریلوی حضرات محض قبر پرست ، تعلیمی میدان میںمعمولی ہوتے ہیں ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو عقل سلیم وراہِ مستقیم عطافرمائے۔‘‘
پھر واں کی تعلیم سےآپ بریلی والے ہی بن کر رہ گئے۔ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی نگاہِ کیمیا اثر اور مخصوص توجہات نے وہ کام کیا کہ آپ کی زندگی اللہ والوں کی گردیدہ ہوگئی۔ بد عقیدگی کے اثرات ذہن وفکر سے مکمل زائل ہوگئے، سینہ عشق رسول کا مدینہ بن گیا ،چنانچہ اِسی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں   ؎
تیرا نام لے کر ہی زندہ ہوں ورنہ

زمانے میں اپنا گزارا نہ ہوتا
سفینہ میرا ڈوب جاتا بھنور میں

جو صابرؔ نے اُن کوپکارانہ ہوتا
 امام عشق ومحبت سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے دربارِ گہر بار سے علم وعمل کی ایسی بے بہا نعمت ملی کہ آپ ہر محاذ پر کامیاب وکامراں رہے۔ پھر وہ ساعت سعید بھی آئی کہ آپ قطب عالم مفتی اعظم مرشد برحق آل رحمٰن شبیہ غوث اعظم شہزادۂ اعلیٰ حضرت سرکار مصطفےٰ رضا خاں ، بریلی شریف کے دست حق پرست پر بیعت ہوکر سرکارِ بغداد سے مستفیض ہوتے ہوئے دربارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی کا زینہ تلاش کرلیا۔ تقریباً ۴؍ یا ۵؍ سال تک دارُالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے متبحر اساتذۂ کرام سے اپنی علمی تشنگی دورکرکے سن ۱۹۷۰؁ء میں دستار فضیلت سے سرفراز کیے گئے۔ چند معروف اساتذۂ کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
٭ حضرت علامہ مولانا محمد احسان علی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان محدث فیض پوری، اورائی ، مظفرپور
٭ حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان ، مونگیر (مصنف : بدایۃ النحو، بدایۃ الصرف وغیرہ )
٭ امام المنطق وفلسفہ حضرت علامہ مولاناخواجہ مظفر حسین صاحب دام ظلہ، پورنیہ
٭ حضرت علامہ مولانا سید عارف حسین صاحب قبلہ مدظلہ العالی، نانپارہ، ضلع بہرائچ، یوپی
٭٭٭



درس تدریس

فراغت کے بعد آپ نےتدریسی سفر کا آغاز کیا۔ کچھ دنوں اتر پردیش کے ضلع قنوج اور کانپور کے اداروںمیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔ اس کے بعد صوبہ بہار  تشریف لائے اور اپنے ضلع سیتامڑھی کی ایک مردم خیر بستی ’بہر ہ‘ جو میجر گنج کے آس پاس ہے ، کچھ دنوں اس کے اطرف وجوانب کے تشنگانِ علوم نبویہ کو خوب خوب سیراب کیا، لیکن ہندونیپال کی سرحد پہ آباد ایک تعلیم یافتہ بستی موضع دھرمپور بھانڑسر سرلاہی نیپال میں واقع مدرسہ اسلامیہ فیض الغرباء کے دوراندیش اراکین نے بہ اصرار تمام آپ کو مدرسہ اسلامیہ فیض الغرباء کے تعلیمی ماحول کو مزید بلند کرنے کے لیے راضی کرلیا اور آپ نے وہاں کئی سال تک تدریسی خدمات انجام دیے ۔ آپ نے اس دوران ہزاروں تشنگانِ علوم نبویہ کی عمدہ تعلیم وتربیت فرمائی ، لیکن بعض نامساعد حالات کی بناپر مستعفی ہوکر گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد مسلم اکثریت والی بستی موضع کنہواں کے ضلعی مرکزی ادارہ الجامعۃ الاسلامیہ رضاء العلوم کے متحرک وفعال سکریٹری حضرت نورالہدیٰ قادری مرحوم کی پیشکش پر کنہواں تشریف لے گئے اور تقریباً پندرہ سال تک وہیںپر اپنےعلمی فیضان کا بادل برساتے رہے ۔ اُس دوران اہل بھانڑسر نیپال مکمل آپ سے رابطے میں رہے اور دباؤ بناتے رہے کہ کچھ دنوں اور وقت دیدیں تاکہ علم دین کا یہ قلعہ مضبوط سے مضبوط تر ہوجائے۔ آپ اُن حضرات کی دیرینہ محبتوں کا خیال کرتے ہوئے تعلیمی وانتظامی امور کو معمول پر لانے کے لیے تشریف لے گئے اور اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے بعد اپنے قائم کردہ خوابوں کی تعبیر جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم آکر اس کی تعلیمی وتعمیری ترقی کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سال کی قلیل مدت میں ایک پرشکوہ عمارت کھڑی کردی اور دین وسنت کا یہ قلعہ ہر آنے والے کو دعوت نظارہ دینے لگا۔ آج اس کی آغوش محبت میںپروان چڑھ کر کثیر طالبان علوم نبویہ اور نونہالان اسلام دین وسنت کی خدمت ملک وبیرون ملک انجام دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔
دُعا ہے کہ مولیٰ عزوجل صبح قیامت تک اس دینی ومذہبی ادارہ کو قائم ودائم رکھے اور اس کے علمی فیضان کا بادل ہمیشہ تشنگان علم پر برستار ہے اور ہردور میں ترجمان مسلک اعلیٰ حضرت بن کر چمکتا ودمکتا رہے۔
اجازت وخلافت:
سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت وخلافت چشم وچراغ رضویت شہزادۂ ریحان ملت سیاح یورپ وایشیاء پیر طریقت حضرت علامہ مولانا توصیف رضا خاں صاحب قبلہ ، بریلی شریف اورپیر طریقت حضرت علامہ مولانا مفتی سعید الرحمن صاحب ، پوکھریرا شریف ضلع مظفرپور اورواقف رموز واسرار مناظر اہل سنت پیر طریقت شیر بہار حضرت علامہ مفتی محمد اسلم رضوی (خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند ومحبوب قطب مدینہ علیہم الرحمۃ والرضوان) سے حاصل تھی۔
ذٰلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء بغیر حساب
٭٭٭

علالت وسفر آخرت

کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتْ امر مسلم ہے۔جس سے کسی جاندار کو مفر نہیں۔ وقت موعود پر ہر شخص کو اس کا کڑواگھونٹ پینا ہی پڑتاہے۔
مفتی شبیر احمد علیہ الرحمہ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۳؁ء کو بغرض تبلیغ وارشاد کٹرہ، ضلع مظفرپور بذریعۂ بس تشریف لے جارہے تھے۔کٹرہ سے قریب بس حادثہ کا شکار ہوگئی، جس میں آپ تھوڑے زخمی ہوئے ، وقتی دوائیں لے کر آپ کٹرہ تشریف لے گئے اور تقریباً دو گھنٹہ خطاب بھی کیا۔واپسی پرسینے میں دردکا احساس ہوا ۔ آپ نے ڈاکٹر آلوک کمار سیتامڑھی کے یہاں معائنہ کروایا اور دوائیں لیں۔ افاقہ بھی ہوگیا لیکن کمزوری کا احساس ہونے لگا ، ایک دودن انتظار کے بعد جب کمزوری زیادہ بڑھنے لگی تو اہل خانہ نے ڈاکٹر مذکور کو رابطہ کیا ، انہوںنے کہا کہ یہاں سیتامڑھی لے کر آجائیے، طاقت کے لیے کچھ پانی وغیرہ چڑھا دیں گے اور ٹانک وغیرہ بھی دیں گے۔آپ اہلیہ اور صاحبزادے احمدرضا صابری اور ایک طالبعلم مقصود سلمہ کو ہمراہ لے کرسیتامڑھی پہنچے اور ڈاکٹر مذکور سے دوبارہ معائنہ کروایا رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ شوگر، بی پی اور حرکت قلب سب کچھ معمول پر ہے، کمزوری محض وقتی ہے دوتین دنوں میں ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد حضرت وہیں ایڈمیٹ ہوگئے اور ڈاکٹر نے طاقت کے لیے کچھ دوائیںلکھیں اور سلائن وغیرہ چڑھایا دو دن ہاسپیٹل میں رہنے کے بعدطبیعت بالکل بحال ہوگئی اور کمزوری بھی جاتی رہی، ڈاکٹر نے شام میں حضرت کے صاحبزادے  احمدرضا صابری کو بتایا کہ آپ کل صبح والد صاحب کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ لیکن قضا وقدر میںکچھ اور لکھا تھا ، مشیت یزدی کو کچھ اور ہی منظور تھا، آپ کو جام وصل حبیب سے سرشار ہونا تھا، قلب وروح کو دیدارِ مصطفےٰ بے چین کررہی تھی۔
۱۴ ؍صفرالمظفر۱۴۳۴؁ھ کی رات مطابق ۲۸؍ دسمبر۲۰۱۲؁ء جمعہ کا دن گزار کر سنیچر کی شب میں تقریباً نو بجے کمپاؤنڈر آکر ریگو لر جانچ(بلڈ پریشر وغیرہ) کرکے چلاگیا۔ ساڑھے نو بجے حسب معمول کھانا وغیرہ کھاکر آرام کی غرض سے لیٹے۔(ہاسپیٹل میں دوہی بیڈ ہونے کی وجہ کر صاحبزادے مولانا احمدرضا صابری شام کو اپنے گھر اندولی آجایا کرتے تھے پھر صبح میں ناشتہ اور دن کا کھانا لے کر جایا کرتے تھے اس دن بھی یہی ہوا شام کو سات بجے وہ والدصاحب سے مل کر اپنے گھر چلے آئے کہ صبح میں والد صاحب کو معائنہ کراکر گھر لانا ہے۔) حضرت نے اپنی اہلیہ محترمہ اور ایک طالبعلم جو اس وقت ہمراہ تھافرمایا کہ آپ لوگ بھی آرام کرلیں۔ اہلیہ نے حسب معمول دودھ پینے کو دیا ، فرمایا: ’’آج آپ ہی پی لیں، مجھے خواہش نہیں ہے۔‘‘وہ لوگ بغل والے بیڈ پر بغرض آرام پہنچے ہی تھے کہ تیز سانس چلنے کی آواز محسوس ہوئی اہلیہ محترمہ دوڑ گئیں اور آپ نے دریافت کیا کہ کیا ہوا؟ جواب ملا’’کچھ نہیں اب افاقہ ہورہا ہے۔‘‘ اہلیہ نے نزدیک جاکر بغور دیکھا اور مطمئن ہوکر پھر سے اپنے بستر پر چلی گئیں تبھی دفعتاً دوبارہ سانس تیز چلنے لگی ، اس بار آواز قدرے تیز تھی، اہلیہ گھبرا گئیں اور پوچھنے لگیں ، ’’آپ کو کچھ ہورہا ہے ، آپ مجھے بتائیں کیاہورہا ہے۔‘‘ لیکن اس بار کچھ بھی آواز نہ نکلی کیونکہ برسوں سے داستان عشق مصطفےٰ سنانےوالی وہ آواز محافل اور انجمنوںمیں گرجنے والی وہ للکار اپنا آخری جملہ بول چکی تھی(کچھ نہیں اب افاقہ ہورہا ہے) سو اِس بار کچھ نہ بولا گیا اور واقعی اب ان کو مکمل افاقہ ہوچکا تھا۔اہلیہ محترمہ نے اول نظر میں سفر آخرت کی کیفیت محسوس کرلی اور موجودہ طالبعلم کو ڈاکٹر کو اطلاع دینے کو کہا اور خود صبرو ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلمہ طیبہ پڑھنے لگیں چندہی منٹ کے بعد نو بج کر۴۸؍ منٹ پر حضرت کی روح مقدس قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ۔   ؎
بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
سیتامڑھی میں موجوداحباب میں سب سے پہلے جناب جاوید بھائی، رائے پور (ہیرو ہونڈا ایجنسی کے مالک)اور امام احمدرضا مسجد ، مہسول چوک کے امام وخطیب حضرت مولانا محمد مبین عالم خان مصباحی، گنگٹی اطلاع ملتے ہی فوری طورپر وہاںپہنچے پھر سیتامڑھی ہی میں بغرض تعلیم مقیم حضرت کے پوتے عزیزم محمد شکیل اختر (پسر فرحت صابری) کو فون کیا گیا ،وہ اپنے دوست عبدالقدوس اندولی کے ہمراہ فوری وہاں پہنچے ۔پھر جاوید بھائی نے فوری طورپر ایمبولینس کا انتظام کیا اور حضرت کے جسد اقدس کو ان کی آبائی بستی اندولی بھیج دیا۔ رات کے ایک بجے حضرت کی نعش مبارک اندولی پہنچی۔ سوگواروں کا جم غفیر اشکبار آنکھوں سے منتظر تھا۔ سب کی آنکھیں اپنے محسن ومربی کے لیے نمناک تھیں۔ حضرت کی نعش کو ان کے دولت کدے پر رکھا گیا۔ دور دراز شہروں میں مقیم بعض اہم پسماندگان تھے جنہیں اطلاع دی گئی اور اُن حضرات کی آمد کے انتظار میں دودن دوراتیں نعش مبارک کو سپرد خاک نہیں کیا گیا۔اس مدت میں دیکھنے والوں نے اپنے ماتھے کی نگاہوں سے خوب خوب دیکھا کہ مکمل ۴۸؍ گھنٹہ بعد بھی حضرت کا چہرہ ویساہی روشن وتابناک تھا جیسے عام حالات میں ہوتاہے۔ لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی آنکھ لگی ہو۔چہرے پر مسکراہٹ کی لکیر دوڑ رہی تھی جو بہ زبان حال یہ کہہ رہی تھی    ؎
جنازے پر مرے اے دوستو! کیا رونا دھونا ہے
ذراسی دیر ہے محبوب کا دیدار ہونا ہے
بتاریخ ۲۹؍ دسمبر بروز سنیچر کو ۱؍ بجے حضرت کو آخری غسل دیا گیا غسل دینے والے خوش نصیبوںمیں حضرت کے دو بھائی مولانا جابر حسین مصباحی وحضرت الحاج ظفیر عالم اور تین صاحبزادگان ڈاکٹر مصطفےٰ رضا ربانی و مولانا احمدرضا صابری وحافظ وقاری توقیر رضا رحمانی اور دیگر حضرات بطور معاونین شامل تھے۔بوقت تین بجے حضرت کا جسد اقدس عام زیات کے لیے ان کے قائم کردہ ادارہ جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم کے وسیع صحن میں لایا گیا، جہاں ہزاروں سوگواروں اور احباب ومتعلقین نے حضرت کا آخری دیدار کیا۔پھر نمازِ جنازہ کی صف بندی کی گئی۔ خلف اکبر حضرت علامہ مولانا محمدرضا صابری مصباحی کی اجازت وخواہش سے شیر نیپال مفتی اعظم نیپال خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الحاج مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی ، جامعہ حنفیہ جنکپور نیپال نے نمازجنازہ پڑھائی ۔ سخت ٹھنڈک کے باوجود تقریباً دس ہزار افراد نے نماز جنارہ میں شرکت فرمائی ۔ اس طرح حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی مقبولیت اور محبوبیت کا عام چرچا ہوگیا۔
جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم کےسامنے پورب طرف آپ کو سپرد خاک کیا گیا تاکہ آپ کی خواہش کے مطابق آپ کی روح جامعہ کے نورانی ماحول میں سیر کرتی رہے اور قال اللہ وقال الرسول کی مبارک صدا آپ کی سماعت سے تکڑاتی رہے اور سکون وقرار بخشتی رہے۔
 ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے
حشرتک شانِ کریمی ناز برداری کرے
٭٭٭








مشاہیر تلامذہ

٭ حضرت علامہ مولانا محمد جابر حسین عزیزی مصباحی (اندولی)
٭ شیخ الادب حضرت علامہ مولانا محمد الیاس مصباحی (اندولی)
٭ سیاح یورپ ایشیاء حضرت علامہ محمد عیسیٰ برکاتی مصباحی (بہرہ)
٭ استاذالشعراء حضرت مولانا فرحتؔ صابری رضوی (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ظفر امام مصباحی (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ملازم رضا مصباحی (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولاالحاج محمد مرتضیٰ علی مصباحی (متونا)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ضیاء المصطفیٰ مصباحی (بھیمواں)
٭ حضرت علامہ مولانا معراج احمد بغدادی (پتانہی)
٭ حضرت علامہ مفتی ظہیر احمد مصباحی (سیب نگر)
٭ حضرت علامہ مولانا محمدرضا مصباحی(شہزادۂ اکرم) (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد نورالہدیٰ خاں مصباحی (مڑپا)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر مصباحی (مرپا)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد اظہارالحق خان، چھپکہیاں (نیپال)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد سالک حسین مصباحی (بیلا کھاپ)
٭ حضرت علامہ مولانا مبین عالم خاںمصباحی (گنگٹی)
٭ حضرت علامہ مولانا صفی اللہ نوری (گنگٹی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد جابر حسین مصباحی (نیپال)
٭ حضرت مولانا قاری غلام رسول نیز غزالی (کچور)
٭ حضرت مولانا محمد مبین خان مصباحی (گنگٹی)
٭ حضرت مولانا عبدالحئی علیمی (اندولی)
٭ حضرت مولانا زاہد حسین مصباحی (نوناہی)
٭ حضرت گوہرؔ صابری (نوناہی)
٭ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علاء الدین قادری (پپرادادن)
٭٭٭
گلشن قادریہ کے مہکتے ہوئے پھول!
٭ عالیجناب الحاج محمد علاء الدین صاحب قادری (سکریٹری)
٭ حضرت علامہ مولانا محمدرضا صابری مصباحی(صدرالمدرسین)
٭ حضرت علامہ مولانا توقیر رضا مصباحی ، متونا
٭ حضرت علامہ مولانا محمد نظام الدین فیضی ، بیرگیا، نیپال
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ایوب رضا قادری، بیلاکھاپ
٭ حضرت حافظ محمد حسینی رضوی ، اندولی
٭ جناب ماسٹر عاشق حسین صاحب، بیلا کھاپ
٭ باورچن صاحبہ، اندولی

کون مفتی شبیر احمد!

 حضر ت مفتی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی ۴۰؍ سالہ تدریسی تبلیغی وتنظیمی خدمات سے طلباء اور عوام وخواص کی ایک کثیر جماعت فیضیاب رہی، حضرت نے ہزاروں کی تعداد میں شاگردوں کی ایک باوقار فوج چھوڑی ہے۔

مفتی شبیر احمد : جو ، اکابر اہلسنت علماء دین وملت کے محبوب نظر اور شریعت وطریقت کے علمبردار اور پاسدارتھے۔
مفتی شبیر احمد : جو ،فلک خطابت کے نیر تاباں اور ملی قیادت وسیادت کے مہر درخشاں تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو ،دوراندیشی ، معاملہ فہمی اور حسن تدبّر میں یکتائے روزگار تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، والدین کی دُعاؤں کا ثمرہ اور سرکار مفتیٔ اعظم ہند کی مخصوص توجہات کا نتیجہ تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، درسیات کے کہنہ مشق معلم، انتظامی اُمور کے کامیاب مہتمم اور دینی ومذہبی تحریکات وتنظیمات کے رہبرو رہنما تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ وَرُحَمَاءُ بَیْنَہُم کی عملی تفسیر اور سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْ ہِہِمْ مِنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ کا عکس جمیل تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، چراغِ مجلس علم، شمع انجمن عاشقاں، زینت بزم محباں او ررہنمائے متلاشیانِ حق وصداقت وطالبانِ حقیقت ومعرفت کے لیے سپیدۂ سحر تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، جو منکسرالمزاج، سلیم الطبع، ادب شناس، علم دوست، روشن خیال، اصاغر نواز اور فقیدالمثال عالم دین تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، سحرطراز خطیب ، صاحب طرز نکتہ سنج ادیب، اسلام وسنت کے داعی ونقیب ، سلف صالحین کے افکاروخیالات کے مبلغ، ستم رسیدہ وشکستہ دلوں کے معالج وطبیب تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، یادگارِ سلف صالحین، سرکار مفتیٔ اعظم ہند کی امانت کے امین، شمع شبستانِ  اذہان ویقین، واصف سیدالمرسلین اور عوام و خواص میں یکساں مقبول وعزیز ترین تھے۔
مفتی شبیر احمد : جن کا، عہد طفولیت ہو یا دورِ شباب، ایام پیری ہوں یا زمانۂ علالت، بفضلہ تعالیٰ ہررخ بے حد کامیاب اور نئی نسلوں کے لیے روشن باب تھا۔
مفتی شبیر احمد : جو ،بچوں کے لیے روشن مستقبل، جوانوں کے خوابوں کی صحیح تعبیر اور بوڑھوں کے مزاج شناس اور ان کے جذبۂ خلوص وایثار کے قدردان تھے۔
مفتی شبیر احمد : جنہوںنے،ہزاروں تلامذہ کی ایسی باوقار فوج چھوڑی جو صبح قیامت تک ان کے مشن کی تکمیل اور ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی رہیں گی۔
مفتی شبیر احمد : جنہوں نے، بدمذہبی اور بد عقیدگی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں خوش عقیدہ مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ کے لیے ’’دارُالعلوم قادریہ مدینۃ العلوم‘‘ کی شکل میں ایک مینارۂ نور کی تعمیر فرمائی۔
٭٭٭
منقبت ؕ
درشان حضرت اقدس مفتی شبیر احمد صابرالقادری نوراللہ مرقدہ
فرحتؔ صابری رضوی
بزم سنن کا شمع فروزاں چلاگیا

ہم سنیوں کے دردکا درماں چلاگیا
رونق تھی جن کی ذات سے پورے دیار میں 

وہ بے مثال مفتیٔ ذیشاں چلا گیا
جس نے گذاری زندگی ترویج علم میں

پڑھتے پڑھاتے آیتِ قرآں چلا گیا
رکھتا جو درسیات نظامی پہ تھا عبور

جامیٔ وقت سعدیٔ دوراں چلا گیا
اِفتاء کی شان اور جو تقویٰ کی جان تھا

وہ کیا گیا کہ جشن بہاراں چلاگیا
آنکھوں کا نور اور جو دل کا سرور تھا

ہم سے چھپا کے وہ رُخِ تاباں چلاگیا
مسلک کا ترجمان تھا ملت کا تھا نقیب

افسوس! دے کے وہ غم ہجراں چلا گیا
دیدارِ مصطفےٰ کی تڑپ قلب میں لیے

وہ مسکراتے گورِ غریباں چلاگیا
ملت کا درد سینے میں جس کے تھا موجزن

صدحیف سنیوں کا وہ پُرساں چلا گیا
بھر بھر کے جو پلاتا رہا جامِ علم دیں

وہ میکدے سے ساقیٔ عرفاں چلا گیا
مجلس ہو اہلِ علم کی یا بزم دوستاں

رہتا تا بن کے جو گل خنداں چلا گیا
ہے جامعہ مدینۃ العلوم یا دگار

وہ جگمگا کے علم کا میداں چلا گیا
صورت بھی بے مثال تھی سیرت بھی بے نظیر

بخشش کا لے کے ساتھ میں ساماں چلاگیا
فرحتؔ میںروکے خون کے آنسو بھی کیا کروں
اپنے ہی گھر میں اپنا وہ مہماں چلاگیا
یادِرفتگاں
بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
٭٭٭
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
٭٭٭
کچھ ایسے نقش بھی راہِ وفا میںچھوڑ آئے ہو
کہ دنیا دیکھتی ہے اور تم کو یاد کرتی ہے
٭٭٭
مدت کے بعد ہوتے ہیںپیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
٭٭٭
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھودیئے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر
٭٭٭
آسماں اس کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے
حشرتک شانِ کریمی ناز برداری کرے
٭٭٭
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے جامِ بقاء دوام لا ساقی
٭٭٭
جنہیں پھر گردش افلاک پیدا کرنہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گورِ غریباں میں
٭٭٭
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہے
تم گیا گئے کہ روٹھ گئے دِن بہار کے
٭٭٭
ہے فنا بعد بقا سب کو جہاں میں آسیؔ
جب چڑھے دھوپ تو سمجھو کہ ہے ڈھلنے کے لیے
٭٭٭
موت اُس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے 
٭٭٭
زندہ ہوجاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ! موت کو کس نے مسیحا کردیا
٭٭٭
وہ اُٹھ کر انجمن سے کیا گئے ہیں
کہ جیسے روشنی گم ہوگئی ہے
٭٭٭
فنا کے بعد بھی باقی ہے شانِ رہبری تیری
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر
٭٭٭
جہاںمیں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
٭٭٭
کچھ ایسے بھی اُٹھ جائیں گے اِ س بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلوگے مگر پا نہ سکوگے
٭٭٭
فلک کے چاند ستارو! اُنہیں تلاش کرو
بڑے حسین مسافر اِدھر سے گذرے ہیں
٭٭٭
آنے والے تو چلے جاتے ہیں درپس لیکن
جانے والے نہیں آتے یہ تماشا کیا ہے
٭٭٭
دیکھنا روئے گی فریاد کریگی دنیا
ہم نہیں ہوں گے ہمیں یاد گرے گی دنیا
٭٭٭
جان کر من جملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
٭٭٭
وہ جان نو بہار ہی گلشن میں جب نہیں
بے رونقی سی چھائی ہے فصل بہار میں
٭٭٭
اعتذار:
حضرت مفتی صاحب قبلہ نوراللہ مرقدہ کے جملہ محبین و مخلصین، شاگردان رشید اور وابستگان حضرات سے گذارش ہے کہ چونکہ بہت ہی عجلت میں اس کتاب کا مسودہ لکھا گیا ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ بعض اہم احباب ، وابستگان اور شاگردان رشید کا ذکر ہونے سے رہ گیا ہو، یا کما حقہ نہ ہو پایا ہو، یا کسی بھی طرح کی کمی نظر آئے تو برائے کرم ہمیں مطلع فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔ عنقریب حضرت کے حیات خدمات کی پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع ہوگی، جس میں شکریہ کے ساتھ شامل اشاعت کرلیا جائے گا۔اور جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم کے فروغ میںجس طرح سے آپ حضرات نے ہرقدم پر حضرت سے والہانہ وابستگی کا اظہار فرمایا ، حضرت کے بعد اپنےتعاون کو مزید استحکام بخشیں تاکہ حضرت کا یہ دینی مشن جاری وساری رہے۔
(محمدرضا مصباحی خلف اکبرحضور مفتی صاحب قبلہ) رابطہ: 9973924015























Unknown




Unknown

آسماں اس کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے
حشرتک شانِ کریمی ناز برداری کرے



بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءْ(القرآن)
مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَمْ(حدیث)

نمونۂ سلف استاذ الاساتذہ ممتاز المدرسین عمدۃ المقررین پیر طریقت رہبر راہِ شریعت حضرت العلام الحاج الشاہ المفتی
 محمد شبیر احمد صابرالقادری نوراللہ مرقدہٗ
مہد سے لحد تک
(مختصر تعارف وخدمات)

مرتب:
فرحتؔ صابری رضوی

ناشر
صابری اکیڈمی دارُالعلوم قادریہ مدینۃ العلوم ، اندولی، سیتامڑھی


بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیر اہتمام : حضرت علامہ ومولانا محمدرضا صابری مصباحی
(خلف اکبر حضرت مفتی صاحب قبلہ نوراللہ مرقدہٗ)
نام کتاب : حضرت مفتی شبیر احمد مہد سے لحد تک
مرتب : فرحت ؔ صابری رضوی
اضافہ ونظر ثانی : احمدرضا صابری
کتابت وطباعت : احمدگرافکس،قطب الدین لین ، سبزی باغ، پٹنہ
سن طباعت : فروری 2013
تعداد : (باراول) پانچ سو
صفحات : ۳۲
ناشر : صابری اکیڈمی دارُالعلوم قاریہ مدینۃ العلوم ، اندولی

ملنے کے پتے:
٭ صابری اکیڈمی دارُالعلوم قاریہ مدینۃ العلوم ، اندولی، سیتامڑھی
٭ احمد گرافکس ، قطب الدین لین ، دریاپور،سبزی باغ، پٹنہ ۴
٭ فیضی کتاب گھر، مہسول چوک، سیتامڑھی
٭ رضا بک ڈپو، پریہارچوک سیتامڑھی


فہرست مضامین
نمبر شمار
مضامین
صفحہ
۱
پیش لفظ : ڈاکٹر امجدرضا امجد، پٹنہ
۴
۲
اجمالی خاکہ : مولانا احمدرضا صابری
۷
۳
شجرۂ نسب
۱۱
۴
خاندان اور آبائے کرام
۱۲
۵
آغاز سخن
۱۵
۶
آغاز تعلیم ، سفر تعلیم اور تکمیل
۱۸
۷
درس وتدریس
۲۴
۸
اجازت وخلافت
۲۵
۹
علالت وسفر آخرت
۲۶
۱۰
مشاہیر تلامذہ
۳۱
۱۱
گلشن قادریہ کے مہکتے ہوئے پھول
۳۲
۱۲
کون مفتی شبیر احمد؟
۳۳
۱۳
منقبت : فرحتؔ صابری رضوی
۳۶
۱۴
یادِرفتگاں
۳۷
۱۵
اعتذار : مولانا محمدرضا صابری مصباحی
۴۰
٭٭٭
تقریظ
ڈاکٹرمفتی امجدرضا امجد
(مدیر رضا بک ریویو) ادارہ شرعیہ ، پٹنہ بہار
بیاکہ من زخم پیر روم آوردم 
مئے سخن کہ جواں تر زبادہ عنبی ست
صوبہ بہار اپنی علمی زرخیزی اوردینی وملی خدمات میںپیشوائی کے سبب پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہے ۔یہاں کی زمین بڑی نم اور زرخیزواقع ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ علم وادب کاتقریباً ہر گوشہ اس مٹی سے پیدا ہونے والے افراد کے تابندہ نقوش سے مستنیرہے ۔مذہب عشق تصوف ادب تحقیق تنقیدتاریخ تذکرہ اور سائنس جس رخ سے دیکھیںصوبہ بہار مالامال ہے ۔بہار کی مٹی میںان تمام خوبیوںکے ساتھ ایک خوبی اور بھی ہے جسے اہل دل اہل نظر اوراہل عشق ’’انکسار‘‘کہتے ہیں۔یہ انکسار کوٹ کوٹ کر ان کے اندر پیوست ہے۔ اس لئے بہت کچھ اوصاف رکھنے کے بعد بھی یہ’’وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم ‘‘کا مجسمہ نظر آتے ہیں۔
ہمارے ممدوح حضرت علامہ مفتی شبیر احمد صابر القادری صاحب بھی علم وعمل کے دھنی اور تدریس وافتاکے مسند نشیں تھے ان کے اندر تحقیق وتنقید ،خطابت وتدریس اور تبلیغ وتنظیم کی ساری صلاحیتیں موجود تھیں جس کے نمونے چشم حقیقت بیں آج بھی دیکھ سکتی ہے مگر وقت کا ایسا مردحق آشنادنیا میں اپنی سادہ زندگی کی وہ مثال چھوڑگیا کہ بڑے بڑے صاحبان جبہ ودستار کے لئے اصلاح حال کی دلیل بن گئی ۔
حضرت مفتی شبیر صاحب کے شاگردوں کی اچھی خاصی تعداد میرے گاؤں ’’رضاباغ گنگٹی‘‘میں موجود ہے ان میں مولانا مبین عالم خاں،مولانا صفی اللہ خاں نوری،محمد شکیل احمد خاں،محمد شعیب خاں ،عزیزی، عرش عالم خاںکانام مجھے یاد آرہاہے اخیر تینوں افراد نے اپنی دنیا الگ تلاش کرلی جب کہ اول الذکر دونوں حضرات ابھی بھی خدمت دین متین سے وابستہ ہیں ۔ایسے سینکڑوں تلامذہ کے توسط سے حضرت مفتی شبیر صاحب قبلہ عالمی سطح پر ابھی بھی خدمت دین اور مسلک اعلیٰ حضرت کی تعمیم وتشہیرمیںمصروف ہیں ۔تاہم ان کی رحلت جماعت اہل سنت کے لئے صدمے اور غم واندوہ کا سبب ہے اور ایک عالم دین کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اس کی رحلت صرف خاندان پر اثر انداز ہونے کے بجائے جماعتی غم میں مدغم ہوجائے۔ پیغمبر اسلام حضور ﷺ کا فرمان مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتَ الْعَالَمْ کا مفہوم بھی یہی ہے ۔اس تناظر میں دیکھیں تو حضرت مفتی شبیر احمد صاحب قبلہ کے جنازے میں ہزاروں کے ازدہام نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی  موت ایک فرد کی نہیں بلکہ عالم کی موت ہے۔
حضرت مفتی صاحب نے اپنے پیچھے کارناموں کی ایک دنیا چھوڑی ہے یہ دنیا وہ ہے جس میں ہر طرف ان کے اخلاق وکردار کی چمک ،عشق ووفاکی خوشبو،ایمان وایقان کا اجالا،غیرت ایمانی کا جوش اور جماعتی سرگرمی کی سرمستیاں فضاؤں میں رچی بسی معلوم ہوتی ہیں ۔رمزؔ عظیم آبادی نے ٹھیک ہی کہا ہے   ؎
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکے ناممکن ہے
نقش قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر بن جائیں گے
ان کی حیات وخدمات کا ایک سرسری جائزہ پیش نظر کتاب ’’ مفتی شبیر احمد لحد سے مہد تک ‘‘میں پیش کیا جارہاہے اسے ہمارے محترم دوست مولانا فرحتؔ صابری نے مرتب فرمایاہے جناب احمد رضاصابری نے اس میں جذبات کے رنگ بھرے ہیں اور بھیگی پلکوں سے پڑھنے کے لئے ہماری نذر کردیاہے ۔یہ کتاب اُس کتاب کا مقدمہ ہے جو حضرت مفتی صاحب کے سالانہ عرس میں طبع ہونی ہے گویا بیتاب جذبوں کی تسکین کے لئے ابھی بارش رحمت کا پہلا قطرہ فراہم کردیا گیا ہے، قطرے میں دریا دیکھنے والے حضرات یقیناً اِس سے شاد کام ہوں گے اور دریاکے متلاشی حضرات کے لئے وہ بھی اپنے مشاہدات کو ان کی تسکین کا سامان بنانے کی کوشش کریں گے۔
خدائے تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کے جملہ اولاد امجاد اور ان کے تمام متعلقان کو شاد وآباد رکھے اور ان کے افکار کو عام وتام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین 

امجدرضا امجد



اجمالی خاکہ
احمدرضا صابری

نام :
محمد شبیر احمد صابرالقادری
القاب :
 استاذالاساتذہ،نمو نۂ سلف، آفتاب چرخ سنیت، ماہتاب فلک رضویت، شمع بزم مسلک اعلیٰ حضرت، مقبولِ بارگاہِ مفتی اعظم ہند، ممتاز المدرسین، عمدۃ المقررین، پیر طریقت، رہبر راہِ شریعت، حضرت العلام الحاج الشاہ المفتی
وطن :
موضع اندولی، بلاک پریہار، ضلع سیتامڑھی (بہار)
ولادت :
 ۵؍ فروری ۱۹۵۲؁ھ میں اپنے آبائی مکان میں ہوئی۔
آغازتعلیم
۱۹۵۷؁ء میں گاؤں ہی کے مکتب سے آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا۔
 تعلیمی درسگاہیں :
مدرسہ اشرف العلوم ، کنہواں، سیتامڑھی۔ موضع کسمہا، مشرقی چمپارن۔دارالعلوم منظر اسلام محلہ سوداگران ، بریلی شریف یوپی۔
تکمیل فضیلت :
۱۹۷۰؁ء میںدارالعلوم منظر اسلام محلہ سوداگران ، بریلی شریف یوپی سے فضیلت کی تکمیل ہوئی۔
تکمیل افتاوفراغت :
۱۹۷۵؁ء میں بریلی شریف سے ہوئی۔
معروف اساتذہ کرام:
٭ حضرت علامہ مولانا محمد احسان علی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان محدث فیض پوری، اورائی ، مظفرپور
٭ حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان ، مونگیر( مصنف : بدایۃ النحو، بدایۃ الصرف وغیرہ )
٭ امام المنطق وفلسفہ حضرت علامہ مولاناخواجہ مظفر حسین صاحب دام ظلہ، پورنیہ
٭ حضرت علامہ مولانا سید عارف حسین صاحب قبلہ مدظلہ العالی، نانپارہ، ضلع بہرائچ، یوپی
تدریسی خدمات
 کچھ دنوں اتر پردیش کے ضلع قنوج اور کانپور کے اداروںمیں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد صوبہ بہار تشریف لائے اور اپنے ضلع سیتامڑھی کی ایک مردم خیر بستی ’بہر ہ‘ جو میجر گنج کے آس پاس ہے ، کچھ دنوں اس کے اطرف وجوانب کے تشنگانِ علوم نبویہ کو سیراب کرتے رہے۔بعدازاں مدرسہ اسلامیہ فیض الغرباء دھرمپور بھانڑسر سرلاہی نیپال تشریف لے گئے۔ اس کے بعد موضع کنہواں کے ضلعی مرکزی ادارہ الجامعۃ الاسلامیہ رضاء العلوم تشریف لے گئے اور وہاں تقریباً پندرہ سال تک اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے بعد اپنےقائم کردہ خوابوں کی تعبیر جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم آکر اس کی تعلیمی وتعمیری ترقی کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔
تعمیری خدمات :
جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم آپ کی شاہکار تعمیری یادگار ہے اس کے علاوہ آپ نے متعدد مدارس ومساجدکا سنگ بنیاد رکھا جو ملک کے مختلف مقامات پر واقع ہیں۔
اصلاحی خدمات :
وعظ وتقریر، بحث ومباحثہ، ردبدعات ومنکرات  کے ذریعے آپ نے قوم وملت کی اصلاح وفلاح کا شاندار کارنامہ انجام دیا۔کئی ساری مذہبی تحریکوں کے روحِ رواں رہے اور علاقائی سطح پر علماء کرام کئی انجمنوں کی سرپرستی بھی فرمائی۔
دعوتی اسفار :
آپ نے مسلک اعلحضرت کی دعوت عام کرنے کیلئے سینکڑوں اجلاس و محافل کی سرپرستی فرمائی اور بہت سارے ریاستی دورے بھی فرمائے۔
حج وزیارت :
۲۰۰۹؁ء میںسفر حج وزیارت سے مشرف ہوئے۔
بیعت
قطب عالم سرکار مفتی اعظم ہند علامہ الشاہ مصطفےٰ رضا خاں قادری بریلوی قدس سرہٗ سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔
خلافت :
٭حضرت علامہ مولانا توصیف رضا صاحب بریلی شریف ٭حضرت علامہ مولانا مفتی سعید الرحمن صاحب ، پوکھریرا شریف ضلع مظفرپو٭حضور مناظر اہل سنت شیر بہار حضرت علامہ الحاج مفتی محمد اسلم رضوی قد سرہ (خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند ومحبوب قطب مدینہ )
وصال :
 ۱۳ ؍صفرالمظفر۱۴۳۴؁ھ کی رات مطابق ۲۸؍ دسمبر۲۰۱۲؁ء جمعہ کا دن گزار کر سنیچر کی شب میں تقریباً نو بج کر ۴۸؍ منٹ پر اپنے مالک حقیقی سےجاملے۔ جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم سے عین متصل پورب کی جانب آپ کی آخری آرامگا ہ ہے۔ 
اولادامجاد :
٭مولانا محمدرضا صابر ی مصباحی (خلف اکبر) ٭احمدرضا صابری٭حامدرضا جیلانی ٭ڈاکٹر مصطفےٰ رضا ربانی٭غزالہ شاہین ٭ حافظ وقاری توقیر رضا رحمانی ٭تنویر رضا حقانی ٭ تفسیر رضا یزدانی٭حافظ تطہیر رضا نعمانی 
٭٭٭



شجرۂ نسب

ابوالجد : حضرت شیخ محمد غوثی رحمۃ اللہ علیہ
جد امجد : حضرت شیخ محمد عظمت علی رحمۃ اللہ علیہ
والد ماجد : حضرت شیخ فوجدار علی رحمۃ اللہ علیہ

(۱) محمد ادریس (۲) سمیلہ خاتون
(۳) حافظ محمد جمیل اختر (۴) حاجی محمد ظفیر عالم
(۵) مفتی شبیر احمد (۶) مولانا جابر حسین
(۱) مولانا محمدرضا صابری (۲) احمدرضاصابری
(۳) محمد حامدرضاجیلانی (۴) ڈاکٹر مصطفےٰ رضاربانی 
(۵) غزالہ شاہین (۶) حافظ توقیر رضا رحمانی
(۷) محمد تنویر رضا حقانی (۸) محمد تفسیر رضایزدانی
(۹) حافظ محمد تطہیر رضانعمانی 
٭٭٭

خاندان اور آباء کرام

جدالامجدحضرت شیخ غوثی مرحوم ایک دیندار ، نیک طبیعت، صاحب جاہ وحشمت ، قدسی صفت ، اخلاق کریمانہ کے دھنی اور اوصاف حمیدہ کے پیکر جمیل تھے۔ بے شمار خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ حق گوئی اور حق پسندی آ پ کا طرۂ امتیاز تھا۔ بڑے خلیق وملنسار اور کریم ومہربان تھے۔ فیاض طبیعت کے مالک تھے۔ عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ علاقہ کے لوگ اپنے دینی دنیوی معاملات میں آ پ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ آپ کی لوح جبیں پہ عظمت وبزرگی کے آثار ہویدا تھے۔ آپ کی حیات مبارکہ کا ہر گوشہ بڑا پاکیزہ اور روشن وتابناک تھا۔ آپ کے تین ہونہار لائق وفائق فرزندان ارجمند تھے۔ 
جن میں حضرت شیخ عظمت کریم مرحوم نے والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مثالی زندگی گزاری۔ اپنے کردار گفتار اور علم وعمل سے ثابت کردیا کہ ولد صالح کی اصل پہچان کیا ہوتی ہے ’’بالائے سرش زہوش مندی ‘‘ کے مکمل نمونہ تھے۔ 
آپ نے بھی بڑی خوشگوار اور کامیاب زندگی بسر کی۔ آپ کے ایک ہی فرزند عزیز حضرت شیخ فوجدار علی مرحوم ومغفور تھے، جو کامیاب معلم، معتمد منشی ، بستی کے بارسوخ زمیندار، منصف مزاج سردار، راسخ الاعتقاد مردمومن ، عظیم المرتبت ، صاحب لیاقت ، کامل الایمان مسلمان، بڑے ہی خوبصورت اور نیک سیرت انسان تھے۔ اللہ آپ کی قبر انور پر رحمتوں کے پھول برسائے۔ 
گاؤں دیہات میں رہتےہوئے علم دین مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی ، شریعت کی پاسداری کا کتنا خیال تھا کہ انہوںنے اس زمانے میں جب کہ آمدورفت کی سہولتیںمیسر نہیں تھیں، سفر کرنا بڑامشکل امر تھا، لوگ اشد ضرورت کے تحت ہی سفر کا ارادہ کرتے تھے، ایسے پریشان کن حالات اور تعلیم وتعلم سے بے رغبتی وبے اعتنائی کے کثافت آلود ماحول میں اپنے لڑکوں کو تحصیل علم کے لیے سعی بلیغ کرنا ایک خدارسیدہ شخص کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ 
اللہ پاک نے آپ کو پانچ فرزند اور ایک لڑکی سے نوازا تھا۔ جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
٭ عالی جناب محمد ادریس مرحوم
٭ علامہ الحاج حافظ محمد جمیل اختر مدظلہ
٭ حضرت الحاج محمد ظفیر عالم مدظلہ
٭ حضرت علامہ الحاج مفتی محمد شبیر احمد قدس سرہٗ العزیز
٭ حضرت علامہ مولانا محمد جابر حسین عزیزی مصباحی مدظلہ العالی
٭ اور ایک لڑکی مرحومہ سمیلہ خاتون تھیں۔
والدہ مرحومہ حمیدہ خاتون جو بڑی نیک دل، پارسا اور پابند صوم وصلوٰۃ معزز خاتون تھیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اور پرورش وپرداخت کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ انہیں کی جدوجہد اور دُعائے سحرگاہی کا نتیجہ ہے کہ ان کے بچے عالم دین بن کر خود بھی روشن ہوئے اور ایک عالم کو روشنی بخشا۔ الحمدللہ آج بھی انہیں کی دُعا کا ثمرہ ہے کہ پورا خاندان علم دین ودنیا سے بہرہ ور ہے۔ اکثر علوم وفنون کے ماہرین اس خاندان کے افراد ہیں جو اظہر من الشمس و ابین من الامس ہے   ؎
شکار ماہ کہ تسخیر آفتاب کروں
میں کس کا نام لوں اور کس کا انتخاب کروں
انشاء اللہ تفصیلی معلومات مفصل سوانح حیات مفتی شبیر احمد علیہ الرحمہ میںملاحظہ فرمائیںگے۔
٭٭٭




آغاز سخن

نمونۂ سلف ، استاذالاساتذہ ممتازالمدرسین ، عمدۃ المقررین پیر طریقت ، رہبر راہِ شریعت حضرت العلام الحاج الشاہ المفتی محمد شبیر احمد صابرالقادری نوراللہ مرقدہ کی ذات ستودہ صفات محتاج تعارف وبیان نہیں۔ آپ کی ہمہ جہت شخصیت عوام وخواص کے مابین منفرالمثال اور یکساں محبوب ومقبول تھی۔ آپ نے علمی وتعمیری میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیا ہے ، تدریس وخطابت میں جو جوہر دکھائے ، تعمیری وتنظیمی منصوبوں کا جو خاکہ پیش کیا ، الجامعۃ القادریہ مدینۃ العلوم کی شکل میں جو دینی واسلامی قلعہ بطور یادگار چھوڑا ہے اور نسلاً بعد نسلٍ شاگردوں کا جو لامتناہی سلسلہ قائم کیا ہے ، دنیا اس کا نعم البدل پیش کرنے سے قاصر ہے۔
یہ وہ انمٹ نقوش ہیںجسے صبح قیامت تک زمانہ فراموش نہیں کرسکے گا۔ جب تک دنیا آباد رہے گی قوم مسلم آپ کی عطاکردہ شاہراہِ حیات سے برگشتہ نہیں ہوگی۔ آپ کےعلم وفضل اور عظمت و بلندی کا علم لہراتا رہے گا۔ آپ کے مرقد انور سے لوگ مستفیض و مستنیر ہوتے رہیں گے   ؎
رہتا ہے نام علم سے زندہ ہمیشہ داغ
اولاد سے تو بس یہی دوپشت چارپشت
اپنے اسلاف واکابر کے نقش قدم کو چراغ منزل بناکر اپنے مقاصد ومنصوبہ جات کو پیکر محسوس میں ڈھالنے کے لیے عمر بھر کوشاں وسرگرداں رہے۔ بلاخوف لومۃ ولائم بغیر کسی تھکان کے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہے۔ اپنی ذہنی وفکری صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے رہے ۔
کہنے والوں نے بہت کچھ کہا ، اپنے بھی پرائے کی زبان استعمال کرنے لگے ، ذہنی وجسمانی اذیتیں بھی دی گئیں، طعن وتشنیع کا بازار بھی گرم کیا گیا ، بے قصور ستانے، شب وستم کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں۔علاقے کی باطل قوتوں نے ہرطرح سے دبانا چاہا لیکن آپ ایک سچے دینی مجاہد باحوصلہ مرد آہن اور فلک پیما ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے۔ پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دیا۔حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اپنے مشن کی تکمیل میں پابہ رکاب رہے۔ تمام تر صعوبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوئے ، حضرت حافظ ملت کے قول’’زمین کے اوپر کام زمین کے نیچے آرام‘‘ پر عمل پیرا رہے۔جس کی قابل تقلیدمثال الجامعۃ القادریہ مدینۃ العلوم کی پرشکوہ ، مستحکم، پائیدار دینی عملی قلعہ کی شکل میں موجود ہے۔ بد مذہبیت اور وبد عقیدگی کے بھیانک ماحول میں خوش عقیدگی وحقانیت کی شمع فروزاں کرنےوالی ذات کو دنیا صابرالقادری کہتی ہے۔
آپ کی اچانک رحلت ملت اسلامیہ کے لیے عظیم سانحہ ہے جس کی تلافی کی صورت بظاہر نظر نہیں آتی۔ دُعا ہے کہ پروردگار عالم جل مجدہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے نعم البدل عطافرمائے۔
جملہ تلامذہ، معتقدین، محبین ، مخلصین اور افراد اہلسنت کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی دیرینہ خواہشوں ، مبارک آرزؤں ، نیک تمناؤں اور تعلیمی تعمیری منصوبوں کو خلوص وللہیت ، عقیدت ومحبت کے جذبوں سے سرشار ہوکر اُسے پایۂ تکمیل تک پہونچائیں، تاکہ ان کی روح مرقد اقدس میں خوش ہو اور ہمیں اس کا اجر عظیم ملے اور ہم تاریخ کے مجرم نہ گردانے جائیں ۔ اس لیے کہ جو قوم اپنے اسلاف کی تاریخ فراموش کردیتی ہے وہ صفحۂ ہستی سے مٹادی جاتی ہے   ؎
مدت کے بعد ہوتے ہیںپیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیںہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
٭٭٭




آغاز تعلیم ، سفر تعلیم اور تکمیل

حسب دستورِ خاندان آپ کی تعلیم وتربیت اپنے گاؤں میں حضرت حافظ  عبدالجلیل مرحوم ( جو پڑوس محلہ پرواہا کے باشندہ تھے) سے حاصل کی۔ جنہیں والد معظم حضرت شیخ فوجدار علی مرحوم نے اپنے خاندان کے بچے اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مقرر کیا تھا۔
جب آپ نے قرآن شریف اور اردو کی ابتدائی کتابوں کی تعلیم بحسن وخوبی مکمل کرلی تو مزید تعلیم کے لیے اس زمانہ کے ایک مشہور مدرسہ اشرف العلوم موضع کنہواں ، ضلع سیتامڑھی ، بہار میں آپ نے داخلہ لیا اور آپ نے وہاں کافیہ وغیرہ تک کتابیںپڑھیں۔ وہاں آپ کے ہم سبق ساتھی اور قریبی دوست حضرت مولاناعلامہ محمد جابر حسین باڑاوی کے بقول: 
’’آپ بے حد ذہین اور خوش گفتار تو تھے ہی ساتھ ہی اپنے درجہ میں ہمیشہ اول رہنے والے، اساتذۂ کے چہیتے تھے، مجھ سے اُن کی کبھی نہیں بنتی تھی کیونکہ امتحانات میں نمبرات کے معاملے میںہمیشہ ہم دونوںمیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہوڑ لگی رہتی تھی، کبھی میں بازی مارجاتا تو کبھی وہ بازی مار جاتے۔ پورے ادارے میں ہم دونوں کی یہ مسابقہ آرائی مشہور تھی اور باقاعدہ گروب بندی ہوچکی تھی۔ کچھ طلباء میرے فیور میں اور کچھ طلباء اُن کے فیور میں۔ اکثرو بیشتر علمی مسائل پر اُن کےساتھ مباحث ہوتے تھے ۔ حضرت بہت ہی یقینی اور مدلل گفتگو کرتے تھے۔ایک بار ہمارے استاد نے ہم دونوںکو بلاکر سمجھا یا کہ جب تم دونوں اتنے ذہین اور باصلاحیت ہو تو آپس میں دوستی کیوں نہیں کرلیتے، ایسے ایک دوسرے کے معاون بنوگے اور صلاحیت میںمزید اضافہ ہوگا۔ اور انہوںنے حضرت کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ آج سے تم دونوں دوست ہو اور ہمیشہ دوست بن کر رہو گے۔ اس کے بعد سے ہم دونوں نے دوستی کرلی اور تادم حیات وہ میرے سب سے قریبی دوست رہے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔(آمین)‘‘
وہاں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موضع کسمہامشرقی چمپارن کی ایک معروف درسگاہ میںمتوسطات تک کی تعلیم حاصل کی۔ اُسی دوران بدعقید وں کی صحبت نے ان کے ذہن وفکر کو متاثر کرنا شروع کردیا اور بقول مولانا جابر حسین عزیزی مصباحی (برادرِ اصغر):
’’چونکہ آپ بہت ہی قادرالکلام اور باصلاحیت تھے اس لیے بہت ہی مدلل اور یقین سے بھرپور گفتگو فرماتے تھے۔ اور ہرطرح کی دلیل کو اپنی حاضر جوابی سے کاٹنے کی کوشش کرتے تھےاور وقتاً فوقتاً اپنے مافی الضمیر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرتے۔ جس کی وجہ سے آپ کے برادرِ اکبر حضرت علامہ مولانا الحاج حافظ محمد جمیل اختر صاحب رضوی مدظلہ (والد بزرگوار مولانا الیاس مصباحی وفرحت صابری)  جو سیتامڑھی سے حفظ مکمل کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے بریلی تشریف لے چکے تھے۔ بہت فکر مند تھے کہ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ (مفتی شبیر احمد) مکمل بدعقیدگی کے رنگ میں رنگ جائیںاگر ایسا ہوا تو پورا کا پورا محلہ ہی ان کی زد میں آجائے گا کیوں کہ ان کی صلاحیت، قابلیت اور قادر الکلامی کا اندازہ اُنہیں بخوبی تھا۔
اِسی پس وپیش اور امید وبیم کے بیچ ہچکولے کھاتے ہوئے حضرت حافظ جمیل مدظلہ العالی نے اپنی فریاد بارگاہِ رضا میں اِن جملوںمیں رکھی :
 ’’اے مجدد عصر ، اے پیشوائے اہل سنت آپ کی مخلصانہ جدوجہد نے کتنے گم گشتگانِ راہ کو راہِ ہدایت سے نوازا ہے، میںبھی یہیں کے خوانِ علم کا پروردہ ہوں ، آپ کی بارگاہ میں فریاد لایا ہوں کہ میرا بھائی ابھی حق وباطل کے درمیان فیصلے کے لیے ذہنی کشمکش کا شکار ہے ۔ اس پر نظر کم ہوجائے اوراُسے نشانِ منزل مل جائے۔‘‘
آپ کی یہ التجا مقبول ہوئی اور ہفتہ عشرہ کے اندر ہی مفتی شبیر احمد سیدھے بریلی شریف حاضر ہوئے اوربڑے بھائی سے اِن الفاظ میں گویا ہوئے :
’’ میں دارُالعلوم دیوبند میں داخلہ کرواکر اپنی درسی کتابیں بھی نکلوا چکا تھا۔ لیکن مجھے ایسا لگا کہ یہاں کی تعلیم میرے حق میں نفع بخش نہیں ہے۔ طبیعت مضمحل ہوگئی اور میںنے بریلی شریف کے لیے رخت سفرباندھ لیا۔‘‘
بریلی شریف تشریف آوری کے بعد محب مکرم حضرت مولانا جابر حسین رضوی باڑاوی کی معیت میں اس دورکے علم وعمل کے بحر ناپیدا کنار اساتذۂ کرام کی درسگاہ میں چند اسباق پڑھے ، دل کا دروازہ کھل گیا ، دیوبندکا پندار علم زمین پوس ہوگیا اور اعتراف حقیقت کرتے ہوئے کہنے لگے :
’’ ہمیں تو مغالطے میںرکھا گیا تھا کہ بریلوی حضرات محض قبر پرست ، تعلیمی میدان میںمعمولی ہوتے ہیں ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو عقل سلیم وراہِ مستقیم عطافرمائے۔‘‘
پھر واں کی تعلیم سےآپ بریلی والے ہی بن کر رہ گئے۔ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کی نگاہِ کیمیا اثر اور مخصوص توجہات نے وہ کام کیا کہ آپ کی زندگی اللہ والوں کی گردیدہ ہوگئی۔ بد عقیدگی کے اثرات ذہن وفکر سے مکمل زائل ہوگئے، سینہ عشق رسول کا مدینہ بن گیا ،چنانچہ اِسی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں   ؎
تیرا نام لے کر ہی زندہ ہوں ورنہ

زمانے میں اپنا گزارا نہ ہوتا
سفینہ میرا ڈوب جاتا بھنور میں

جو صابرؔ نے اُن کوپکارانہ ہوتا
 امام عشق ومحبت سیدی اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کے دربارِ گہر بار سے علم وعمل کی ایسی بے بہا نعمت ملی کہ آپ ہر محاذ پر کامیاب وکامراں رہے۔ پھر وہ ساعت سعید بھی آئی کہ آپ قطب عالم مفتی اعظم مرشد برحق آل رحمٰن شبیہ غوث اعظم شہزادۂ اعلیٰ حضرت سرکار مصطفےٰ رضا خاں ، بریلی شریف کے دست حق پرست پر بیعت ہوکر سرکارِ بغداد سے مستفیض ہوتے ہوئے دربارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی کا زینہ تلاش کرلیا۔ تقریباً ۴؍ یا ۵؍ سال تک دارُالعلوم منظر اسلام بریلی شریف کے متبحر اساتذۂ کرام سے اپنی علمی تشنگی دورکرکے سن ۱۹۷۰؁ء میں دستار فضیلت سے سرفراز کیے گئے۔ چند معروف اساتذۂ کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
٭ حضرت علامہ مولانا محمد احسان علی صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان محدث فیض پوری، اورائی ، مظفرپور
٭ حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب علیہ الرحمۃ والرضوان ، مونگیر (مصنف : بدایۃ النحو، بدایۃ الصرف وغیرہ )
٭ امام المنطق وفلسفہ حضرت علامہ مولاناخواجہ مظفر حسین صاحب دام ظلہ، پورنیہ
٭ حضرت علامہ مولانا سید عارف حسین صاحب قبلہ مدظلہ العالی، نانپارہ، ضلع بہرائچ، یوپی
٭٭٭



درس تدریس

فراغت کے بعد آپ نےتدریسی سفر کا آغاز کیا۔ کچھ دنوں اتر پردیش کے ضلع قنوج اور کانپور کے اداروںمیں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ۔ اس کے بعد صوبہ بہار  تشریف لائے اور اپنے ضلع سیتامڑھی کی ایک مردم خیر بستی ’بہر ہ‘ جو میجر گنج کے آس پاس ہے ، کچھ دنوں اس کے اطرف وجوانب کے تشنگانِ علوم نبویہ کو خوب خوب سیراب کیا، لیکن ہندونیپال کی سرحد پہ آباد ایک تعلیم یافتہ بستی موضع دھرمپور بھانڑسر سرلاہی نیپال میں واقع مدرسہ اسلامیہ فیض الغرباء کے دوراندیش اراکین نے بہ اصرار تمام آپ کو مدرسہ اسلامیہ فیض الغرباء کے تعلیمی ماحول کو مزید بلند کرنے کے لیے راضی کرلیا اور آپ نے وہاں کئی سال تک تدریسی خدمات انجام دیے ۔ آپ نے اس دوران ہزاروں تشنگانِ علوم نبویہ کی عمدہ تعلیم وتربیت فرمائی ، لیکن بعض نامساعد حالات کی بناپر مستعفی ہوکر گھر تشریف لے آئے۔ اس کے بعد مسلم اکثریت والی بستی موضع کنہواں کے ضلعی مرکزی ادارہ الجامعۃ الاسلامیہ رضاء العلوم کے متحرک وفعال سکریٹری حضرت نورالہدیٰ قادری مرحوم کی پیشکش پر کنہواں تشریف لے گئے اور تقریباً پندرہ سال تک وہیںپر اپنےعلمی فیضان کا بادل برساتے رہے ۔ اُس دوران اہل بھانڑسر نیپال مکمل آپ سے رابطے میں رہے اور دباؤ بناتے رہے کہ کچھ دنوں اور وقت دیدیں تاکہ علم دین کا یہ قلعہ مضبوط سے مضبوط تر ہوجائے۔ آپ اُن حضرات کی دیرینہ محبتوں کا خیال کرتے ہوئے تعلیمی وانتظامی امور کو معمول پر لانے کے لیے تشریف لے گئے اور اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے بعد اپنے قائم کردہ خوابوں کی تعبیر جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم آکر اس کی تعلیمی وتعمیری ترقی کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سال کی قلیل مدت میں ایک پرشکوہ عمارت کھڑی کردی اور دین وسنت کا یہ قلعہ ہر آنے والے کو دعوت نظارہ دینے لگا۔ آج اس کی آغوش محبت میںپروان چڑھ کر کثیر طالبان علوم نبویہ اور نونہالان اسلام دین وسنت کی خدمت ملک وبیرون ملک انجام دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔
دُعا ہے کہ مولیٰ عزوجل صبح قیامت تک اس دینی ومذہبی ادارہ کو قائم ودائم رکھے اور اس کے علمی فیضان کا بادل ہمیشہ تشنگان علم پر برستار ہے اور ہردور میں ترجمان مسلک اعلیٰ حضرت بن کر چمکتا ودمکتا رہے۔
اجازت وخلافت:
سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کی اجازت وخلافت چشم وچراغ رضویت شہزادۂ ریحان ملت سیاح یورپ وایشیاء پیر طریقت حضرت علامہ مولانا توصیف رضا خاں صاحب قبلہ ، بریلی شریف اورپیر طریقت حضرت علامہ مولانا مفتی سعید الرحمن صاحب ، پوکھریرا شریف ضلع مظفرپور اورواقف رموز واسرار مناظر اہل سنت پیر طریقت شیر بہار حضرت علامہ مفتی محمد اسلم رضوی (خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند ومحبوب قطب مدینہ علیہم الرحمۃ والرضوان) سے حاصل تھی۔
ذٰلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء بغیر حساب
٭٭٭

علالت وسفر آخرت

کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتْ امر مسلم ہے۔جس سے کسی جاندار کو مفر نہیں۔ وقت موعود پر ہر شخص کو اس کا کڑواگھونٹ پینا ہی پڑتاہے۔
مفتی شبیر احمد علیہ الرحمہ۱۱؍ دسمبر ۲۰۱۳؁ء کو بغرض تبلیغ وارشاد کٹرہ، ضلع مظفرپور بذریعۂ بس تشریف لے جارہے تھے۔کٹرہ سے قریب بس حادثہ کا شکار ہوگئی، جس میں آپ تھوڑے زخمی ہوئے ، وقتی دوائیں لے کر آپ کٹرہ تشریف لے گئے اور تقریباً دو گھنٹہ خطاب بھی کیا۔واپسی پرسینے میں دردکا احساس ہوا ۔ آپ نے ڈاکٹر آلوک کمار سیتامڑھی کے یہاں معائنہ کروایا اور دوائیں لیں۔ افاقہ بھی ہوگیا لیکن کمزوری کا احساس ہونے لگا ، ایک دودن انتظار کے بعد جب کمزوری زیادہ بڑھنے لگی تو اہل خانہ نے ڈاکٹر مذکور کو رابطہ کیا ، انہوںنے کہا کہ یہاں سیتامڑھی لے کر آجائیے، طاقت کے لیے کچھ پانی وغیرہ چڑھا دیں گے اور ٹانک وغیرہ بھی دیں گے۔آپ اہلیہ اور صاحبزادے احمدرضا صابری اور ایک طالبعلم مقصود سلمہ کو ہمراہ لے کرسیتامڑھی پہنچے اور ڈاکٹر مذکور سے دوبارہ معائنہ کروایا رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ شوگر، بی پی اور حرکت قلب سب کچھ معمول پر ہے، کمزوری محض وقتی ہے دوتین دنوں میں ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد حضرت وہیں ایڈمیٹ ہوگئے اور ڈاکٹر نے طاقت کے لیے کچھ دوائیںلکھیں اور سلائن وغیرہ چڑھایا دو دن ہاسپیٹل میں رہنے کے بعدطبیعت بالکل بحال ہوگئی اور کمزوری بھی جاتی رہی، ڈاکٹر نے شام میں حضرت کے صاحبزادے  احمدرضا صابری کو بتایا کہ آپ کل صبح والد صاحب کو گھر لے جا سکتے ہیں۔ لیکن قضا وقدر میںکچھ اور لکھا تھا ، مشیت یزدی کو کچھ اور ہی منظور تھا، آپ کو جام وصل حبیب سے سرشار ہونا تھا، قلب وروح کو دیدارِ مصطفےٰ بے چین کررہی تھی۔
۱۴ ؍صفرالمظفر۱۴۳۴؁ھ کی رات مطابق ۲۸؍ دسمبر۲۰۱۲؁ء جمعہ کا دن گزار کر سنیچر کی شب میں تقریباً نو بجے کمپاؤنڈر آکر ریگو لر جانچ(بلڈ پریشر وغیرہ) کرکے چلاگیا۔ ساڑھے نو بجے حسب معمول کھانا وغیرہ کھاکر آرام کی غرض سے لیٹے۔(ہاسپیٹل میں دوہی بیڈ ہونے کی وجہ کر صاحبزادے مولانا احمدرضا صابری شام کو اپنے گھر اندولی آجایا کرتے تھے پھر صبح میں ناشتہ اور دن کا کھانا لے کر جایا کرتے تھے اس دن بھی یہی ہوا شام کو سات بجے وہ والدصاحب سے مل کر اپنے گھر چلے آئے کہ صبح میں والد صاحب کو معائنہ کراکر گھر لانا ہے۔) حضرت نے اپنی اہلیہ محترمہ اور ایک طالبعلم جو اس وقت ہمراہ تھافرمایا کہ آپ لوگ بھی آرام کرلیں۔ اہلیہ نے حسب معمول دودھ پینے کو دیا ، فرمایا: ’’آج آپ ہی پی لیں، مجھے خواہش نہیں ہے۔‘‘وہ لوگ بغل والے بیڈ پر بغرض آرام پہنچے ہی تھے کہ تیز سانس چلنے کی آواز محسوس ہوئی اہلیہ محترمہ دوڑ گئیں اور آپ نے دریافت کیا کہ کیا ہوا؟ جواب ملا’’کچھ نہیں اب افاقہ ہورہا ہے۔‘‘ اہلیہ نے نزدیک جاکر بغور دیکھا اور مطمئن ہوکر پھر سے اپنے بستر پر چلی گئیں تبھی دفعتاً دوبارہ سانس تیز چلنے لگی ، اس بار آواز قدرے تیز تھی، اہلیہ گھبرا گئیں اور پوچھنے لگیں ، ’’آپ کو کچھ ہورہا ہے ، آپ مجھے بتائیں کیاہورہا ہے۔‘‘ لیکن اس بار کچھ بھی آواز نہ نکلی کیونکہ برسوں سے داستان عشق مصطفےٰ سنانےوالی وہ آواز محافل اور انجمنوںمیں گرجنے والی وہ للکار اپنا آخری جملہ بول چکی تھی(کچھ نہیں اب افاقہ ہورہا ہے) سو اِس بار کچھ نہ بولا گیا اور واقعی اب ان کو مکمل افاقہ ہوچکا تھا۔اہلیہ محترمہ نے اول نظر میں سفر آخرت کی کیفیت محسوس کرلی اور موجودہ طالبعلم کو ڈاکٹر کو اطلاع دینے کو کہا اور خود صبرو ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کلمہ طیبہ پڑھنے لگیں چندہی منٹ کے بعد نو بج کر۴۸؍ منٹ پر حضرت کی روح مقدس قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ۔   ؎
بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
سیتامڑھی میں موجوداحباب میں سب سے پہلے جناب جاوید بھائی، رائے پور (ہیرو ہونڈا ایجنسی کے مالک)اور امام احمدرضا مسجد ، مہسول چوک کے امام وخطیب حضرت مولانا محمد مبین عالم خان مصباحی، گنگٹی اطلاع ملتے ہی فوری طورپر وہاںپہنچے پھر سیتامڑھی ہی میں بغرض تعلیم مقیم حضرت کے پوتے عزیزم محمد شکیل اختر (پسر فرحت صابری) کو فون کیا گیا ،وہ اپنے دوست عبدالقدوس اندولی کے ہمراہ فوری وہاں پہنچے ۔پھر جاوید بھائی نے فوری طورپر ایمبولینس کا انتظام کیا اور حضرت کے جسد اقدس کو ان کی آبائی بستی اندولی بھیج دیا۔ رات کے ایک بجے حضرت کی نعش مبارک اندولی پہنچی۔ سوگواروں کا جم غفیر اشکبار آنکھوں سے منتظر تھا۔ سب کی آنکھیں اپنے محسن ومربی کے لیے نمناک تھیں۔ حضرت کی نعش کو ان کے دولت کدے پر رکھا گیا۔ دور دراز شہروں میں مقیم بعض اہم پسماندگان تھے جنہیں اطلاع دی گئی اور اُن حضرات کی آمد کے انتظار میں دودن دوراتیں نعش مبارک کو سپرد خاک نہیں کیا گیا۔اس مدت میں دیکھنے والوں نے اپنے ماتھے کی نگاہوں سے خوب خوب دیکھا کہ مکمل ۴۸؍ گھنٹہ بعد بھی حضرت کا چہرہ ویساہی روشن وتابناک تھا جیسے عام حالات میں ہوتاہے۔ لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی آنکھ لگی ہو۔چہرے پر مسکراہٹ کی لکیر دوڑ رہی تھی جو بہ زبان حال یہ کہہ رہی تھی    ؎
جنازے پر مرے اے دوستو! کیا رونا دھونا ہے
ذراسی دیر ہے محبوب کا دیدار ہونا ہے
بتاریخ ۲۹؍ دسمبر بروز سنیچر کو ۱؍ بجے حضرت کو آخری غسل دیا گیا غسل دینے والے خوش نصیبوںمیں حضرت کے دو بھائی مولانا جابر حسین مصباحی وحضرت الحاج ظفیر عالم اور تین صاحبزادگان ڈاکٹر مصطفےٰ رضا ربانی و مولانا احمدرضا صابری وحافظ وقاری توقیر رضا رحمانی اور دیگر حضرات بطور معاونین شامل تھے۔بوقت تین بجے حضرت کا جسد اقدس عام زیات کے لیے ان کے قائم کردہ ادارہ جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم کے وسیع صحن میں لایا گیا، جہاں ہزاروں سوگواروں اور احباب ومتعلقین نے حضرت کا آخری دیدار کیا۔پھر نمازِ جنازہ کی صف بندی کی گئی۔ خلف اکبر حضرت علامہ مولانا محمدرضا صابری مصباحی کی اجازت وخواہش سے شیر نیپال مفتی اعظم نیپال خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الحاج مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی ، جامعہ حنفیہ جنکپور نیپال نے نمازجنازہ پڑھائی ۔ سخت ٹھنڈک کے باوجود تقریباً دس ہزار افراد نے نماز جنارہ میں شرکت فرمائی ۔ اس طرح حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی مقبولیت اور محبوبیت کا عام چرچا ہوگیا۔
جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم کےسامنے پورب طرف آپ کو سپرد خاک کیا گیا تاکہ آپ کی خواہش کے مطابق آپ کی روح جامعہ کے نورانی ماحول میں سیر کرتی رہے اور قال اللہ وقال الرسول کی مبارک صدا آپ کی سماعت سے تکڑاتی رہے اور سکون وقرار بخشتی رہے۔
 ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے
حشرتک شانِ کریمی ناز برداری کرے
٭٭٭








مشاہیر تلامذہ

٭ حضرت علامہ مولانا محمد جابر حسین عزیزی مصباحی (اندولی)
٭ شیخ الادب حضرت علامہ مولانا محمد الیاس مصباحی (اندولی)
٭ سیاح یورپ ایشیاء حضرت علامہ محمد عیسیٰ برکاتی مصباحی (بہرہ)
٭ استاذالشعراء حضرت مولانا فرحتؔ صابری رضوی (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ظفر امام مصباحی (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ملازم رضا مصباحی (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولاالحاج محمد مرتضیٰ علی مصباحی (متونا)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ضیاء المصطفیٰ مصباحی (بھیمواں)
٭ حضرت علامہ مولانا معراج احمد بغدادی (پتانہی)
٭ حضرت علامہ مفتی ظہیر احمد مصباحی (سیب نگر)
٭ حضرت علامہ مولانا محمدرضا مصباحی(شہزادۂ اکرم) (اندولی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد نورالہدیٰ خاں مصباحی (مڑپا)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد جمیل اختر مصباحی (مرپا)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد اظہارالحق خان، چھپکہیاں (نیپال)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد سالک حسین مصباحی (بیلا کھاپ)
٭ حضرت علامہ مولانا مبین عالم خاںمصباحی (گنگٹی)
٭ حضرت علامہ مولانا صفی اللہ نوری (گنگٹی)
٭ حضرت علامہ مولانا محمد جابر حسین مصباحی (نیپال)
٭ حضرت مولانا قاری غلام رسول نیز غزالی (کچور)
٭ حضرت مولانا محمد مبین خان مصباحی (گنگٹی)
٭ حضرت مولانا عبدالحئی علیمی (اندولی)
٭ حضرت مولانا زاہد حسین مصباحی (نوناہی)
٭ حضرت گوہرؔ صابری (نوناہی)
٭ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد علاء الدین قادری (پپرادادن)
٭٭٭
گلشن قادریہ کے مہکتے ہوئے پھول!
٭ عالیجناب الحاج محمد علاء الدین صاحب قادری (سکریٹری)
٭ حضرت علامہ مولانا محمدرضا صابری مصباحی(صدرالمدرسین)
٭ حضرت علامہ مولانا توقیر رضا مصباحی ، متونا
٭ حضرت علامہ مولانا محمد نظام الدین فیضی ، بیرگیا، نیپال
٭ حضرت علامہ مولانا محمد ایوب رضا قادری، بیلاکھاپ
٭ حضرت حافظ محمد حسینی رضوی ، اندولی
٭ جناب ماسٹر عاشق حسین صاحب، بیلا کھاپ
٭ باورچن صاحبہ، اندولی

کون مفتی شبیر احمد!

 حضر ت مفتی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی ۴۰؍ سالہ تدریسی تبلیغی وتنظیمی خدمات سے طلباء اور عوام وخواص کی ایک کثیر جماعت فیضیاب رہی، حضرت نے ہزاروں کی تعداد میں شاگردوں کی ایک باوقار فوج چھوڑی ہے۔

مفتی شبیر احمد : جو ، اکابر اہلسنت علماء دین وملت کے محبوب نظر اور شریعت وطریقت کے علمبردار اور پاسدارتھے۔
مفتی شبیر احمد : جو ،فلک خطابت کے نیر تاباں اور ملی قیادت وسیادت کے مہر درخشاں تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو ،دوراندیشی ، معاملہ فہمی اور حسن تدبّر میں یکتائے روزگار تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، والدین کی دُعاؤں کا ثمرہ اور سرکار مفتیٔ اعظم ہند کی مخصوص توجہات کا نتیجہ تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، درسیات کے کہنہ مشق معلم، انتظامی اُمور کے کامیاب مہتمم اور دینی ومذہبی تحریکات وتنظیمات کے رہبرو رہنما تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ وَرُحَمَاءُ بَیْنَہُم کی عملی تفسیر اور سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْ ہِہِمْ مِنْ اَثَرِالسُّجُوْدِ کا عکس جمیل تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، چراغِ مجلس علم، شمع انجمن عاشقاں، زینت بزم محباں او ررہنمائے متلاشیانِ حق وصداقت وطالبانِ حقیقت ومعرفت کے لیے سپیدۂ سحر تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، جو منکسرالمزاج، سلیم الطبع، ادب شناس، علم دوست، روشن خیال، اصاغر نواز اور فقیدالمثال عالم دین تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، سحرطراز خطیب ، صاحب طرز نکتہ سنج ادیب، اسلام وسنت کے داعی ونقیب ، سلف صالحین کے افکاروخیالات کے مبلغ، ستم رسیدہ وشکستہ دلوں کے معالج وطبیب تھے۔
مفتی شبیر احمد : جو، یادگارِ سلف صالحین، سرکار مفتیٔ اعظم ہند کی امانت کے امین، شمع شبستانِ  اذہان ویقین، واصف سیدالمرسلین اور عوام و خواص میں یکساں مقبول وعزیز ترین تھے۔
مفتی شبیر احمد : جن کا، عہد طفولیت ہو یا دورِ شباب، ایام پیری ہوں یا زمانۂ علالت، بفضلہ تعالیٰ ہررخ بے حد کامیاب اور نئی نسلوں کے لیے روشن باب تھا۔
مفتی شبیر احمد : جو ،بچوں کے لیے روشن مستقبل، جوانوں کے خوابوں کی صحیح تعبیر اور بوڑھوں کے مزاج شناس اور ان کے جذبۂ خلوص وایثار کے قدردان تھے۔
مفتی شبیر احمد : جنہوںنے،ہزاروں تلامذہ کی ایسی باوقار فوج چھوڑی جو صبح قیامت تک ان کے مشن کی تکمیل اور ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی رہیں گی۔
مفتی شبیر احمد : جنہوں نے، بدمذہبی اور بد عقیدگی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں خوش عقیدہ مسلمانوں کے دین وایمان کے تحفظ کے لیے ’’دارُالعلوم قادریہ مدینۃ العلوم‘‘ کی شکل میں ایک مینارۂ نور کی تعمیر فرمائی۔
٭٭٭
منقبت ؕ
درشان حضرت اقدس مفتی شبیر احمد صابرالقادری نوراللہ مرقدہ
فرحتؔ صابری رضوی
بزم سنن کا شمع فروزاں چلاگیا

ہم سنیوں کے دردکا درماں چلاگیا
رونق تھی جن کی ذات سے پورے دیار میں 

وہ بے مثال مفتیٔ ذیشاں چلا گیا
جس نے گذاری زندگی ترویج علم میں

پڑھتے پڑھاتے آیتِ قرآں چلا گیا
رکھتا جو درسیات نظامی پہ تھا عبور

جامیٔ وقت سعدیٔ دوراں چلا گیا
اِفتاء کی شان اور جو تقویٰ کی جان تھا

وہ کیا گیا کہ جشن بہاراں چلاگیا
آنکھوں کا نور اور جو دل کا سرور تھا

ہم سے چھپا کے وہ رُخِ تاباں چلاگیا
مسلک کا ترجمان تھا ملت کا تھا نقیب

افسوس! دے کے وہ غم ہجراں چلا گیا
دیدارِ مصطفےٰ کی تڑپ قلب میں لیے

وہ مسکراتے گورِ غریباں چلاگیا
ملت کا درد سینے میں جس کے تھا موجزن

صدحیف سنیوں کا وہ پُرساں چلا گیا
بھر بھر کے جو پلاتا رہا جامِ علم دیں

وہ میکدے سے ساقیٔ عرفاں چلا گیا
مجلس ہو اہلِ علم کی یا بزم دوستاں

رہتا تا بن کے جو گل خنداں چلا گیا
ہے جامعہ مدینۃ العلوم یا دگار

وہ جگمگا کے علم کا میداں چلا گیا
صورت بھی بے مثال تھی سیرت بھی بے نظیر

بخشش کا لے کے ساتھ میں ساماں چلاگیا
فرحتؔ میںروکے خون کے آنسو بھی کیا کروں
اپنے ہی گھر میں اپنا وہ مہماں چلاگیا
یادِرفتگاں
بڑے غور سے سن رہا تھا زمانہ
تمہیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
٭٭٭
کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
٭٭٭
کچھ ایسے نقش بھی راہِ وفا میںچھوڑ آئے ہو
کہ دنیا دیکھتی ہے اور تم کو یاد کرتی ہے
٭٭٭
مدت کے بعد ہوتے ہیںپیدا کہیں وہ لوگ
مٹتے نہیں ہیں دہر سے جن کے نشاں کبھی
٭٭٭
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھودیئے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر
٭٭٭
آسماں اس کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے
حشرتک شانِ کریمی ناز برداری کرے
٭٭٭
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے جامِ بقاء دوام لا ساقی
٭٭٭
جنہیں پھر گردش افلاک پیدا کرنہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گورِ غریباں میں
٭٭٭
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہے
تم گیا گئے کہ روٹھ گئے دِن بہار کے
٭٭٭
ہے فنا بعد بقا سب کو جہاں میں آسیؔ
جب چڑھے دھوپ تو سمجھو کہ ہے ڈھلنے کے لیے
٭٭٭
موت اُس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے 
٭٭٭
زندہ ہوجاتے ہیں جو مرتے ہیں حق کے نام پر
اللہ اللہ! موت کو کس نے مسیحا کردیا
٭٭٭
وہ اُٹھ کر انجمن سے کیا گئے ہیں
کہ جیسے روشنی گم ہوگئی ہے
٭٭٭
فنا کے بعد بھی باقی ہے شانِ رہبری تیری
خدا کی رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر
٭٭٭
جہاںمیں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
٭٭٭
کچھ ایسے بھی اُٹھ جائیں گے اِ س بزم سے جن کو
تم ڈھونڈنے نکلوگے مگر پا نہ سکوگے
٭٭٭
فلک کے چاند ستارو! اُنہیں تلاش کرو
بڑے حسین مسافر اِدھر سے گذرے ہیں
٭٭٭
آنے والے تو چلے جاتے ہیں درپس لیکن
جانے والے نہیں آتے یہ تماشا کیا ہے
٭٭٭
دیکھنا روئے گی فریاد کریگی دنیا
ہم نہیں ہوں گے ہمیں یاد گرے گی دنیا
٭٭٭
جان کر من جملہ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے
٭٭٭
وہ جان نو بہار ہی گلشن میں جب نہیں
بے رونقی سی چھائی ہے فصل بہار میں
٭٭٭
اعتذار:
حضرت مفتی صاحب قبلہ نوراللہ مرقدہ کے جملہ محبین و مخلصین، شاگردان رشید اور وابستگان حضرات سے گذارش ہے کہ چونکہ بہت ہی عجلت میں اس کتاب کا مسودہ لکھا گیا ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ بعض اہم احباب ، وابستگان اور شاگردان رشید کا ذکر ہونے سے رہ گیا ہو، یا کما حقہ نہ ہو پایا ہو، یا کسی بھی طرح کی کمی نظر آئے تو برائے کرم ہمیں مطلع فرماکر ممنون ومشکور فرمائیں۔ عنقریب حضرت کے حیات خدمات کی پر مشتمل ایک ضخیم کتاب شائع ہوگی، جس میں شکریہ کے ساتھ شامل اشاعت کرلیا جائے گا۔اور جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم کے فروغ میںجس طرح سے آپ حضرات نے ہرقدم پر حضرت سے والہانہ وابستگی کا اظہار فرمایا ، حضرت کے بعد اپنےتعاون کو مزید استحکام بخشیں تاکہ حضرت کا یہ دینی مشن جاری وساری رہے۔
(محمدرضا مصباحی خلف اکبرحضور مفتی صاحب قبلہ) رابطہ: 9973924015


Powered by Blogger.